بھارت کے ایک نوجوان بابا ہیں۔شری اچاریہ بھاگیشور۔سوشل میڈیا پر ان کی مختلف ویڈیو کوئی ایک سال سے دیکھ رہا ہوں‘ ویڈیو دیکھنے کی وجہ پراسرار علوم میں میری دلچسپی ہے۔اچاریہ بھاگیشور کی مجلس میں روزانہ ہزاروں دکھیارے‘ مصیبت مارے‘ توہمات کے شکار اور غریب امیر موجود ہوتے ہیں۔کوئی خاتون ہاتھ کھڑا کرتی ہے۔اچاریہ جی اسے بلاتے ہیں۔جب تک وہ ان کے قدموں میں بیٹھتی ہے وہ سلیٹ پر کچھ لکھ کر الگ رکھ دیتے ہیں۔خاتون بتاتی ہے کہ وہ بے اولاد ہے اور بابا سے دعا کی درخواست کرتی ہے۔اچاریہ بھاگیشور سلیٹ اٹھاتا ہے۔مجمع کی طرف سلیٹ کا لکھا ہوا رخ کرتا ہے جس پر خاتون کا نام اور بے اولادی کے متعلق بتایا گیا ہے۔اچاریہ جی اچانک اعلان کرتے ہیں کہ مجمع میں روی نام کا ایک صحافی موجود ہے‘ جس کے باپ کا نام فلاں ہے، صحافی سامنے آ بیٹھتا ہے۔ اچاریہ بھاگیشور اپنی کرامت کا رعب بڑھانے کے لئے اسے کہتے ہیں کہ تمہارے چاچا کا نام فلاں ہے‘ تمہاری چھوٹی بہن کا نام فلاں ہے‘ تمہارے بھائی نے ابھی ابھی نیا گھر بنایا ہے۔ پے درپے انکشافات صحافی کے لئے حیران کن ہیں۔ مجمع ’’بابا بھاگیشورکی جے‘‘ کے نعرے لگاتا ہے۔ایک سال کے دوران میں نے دیکھا کہ اچاریہ بھاگیشور کے لباس بدلے‘ پھر سر پر ایک عجیب و غریب سی پگڑی آ گئی۔شائد یہ ان کے علاقے کی ہے‘ مجمع بڑا ہوتا گیا۔شروع میں ان کا لہجہ متوازن ہوتا تھا‘ اب اس میں تکبرکا رنگ خاصا نمایاں ہو رہا ہے۔ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب ایک چینل نے ان کی کرامتوں کو دکھانا شروع کر دیا۔دوسرے چینل نے تھوڑی تحقیق کی اور سوہانی شاہ نام کی ایک تعلیم یافتہ خاتون ڈھونڈ نکالی۔یہ خاتون اچاریہ بھاگیشورکی طرح ہی لوگوں کے دماغ پڑھ سکتی ہے۔اس وقت وہ جس چینل پر جاتی ہیں اس کی ریٹنگ آسمان کو چھونے لگتی ہے۔سوہانی کا کہنا ہے کہ یہ ایک فن ہے۔ جادو ہے اور کچھ تیکنیکس کا استعمال ہے۔اس کا کسی معجزے یا کرامت سے تعلق نہیں۔لوگ اس کی بات توجہ سے سن رہے ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی معاملہ ہو گیا ہے جیسا عامر خان کی فلم ’’پی کے‘‘ میں رانگ نمبر بابا کا تھا۔بھاگیشور کے حامی لاکھوں میں ہیں‘ وہ احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے بابا کی توہین بند کی جائے لیکن فرسودہ خیالات میں مشہور بھارتی سماج سوہانی کی رائے کو تسلیم کر رہا ہے۔ مجھے ٹیلی پیتھی سے دلچسپی رہی ہے۔اس علم سے پہلا تعارف سسپینس ڈائجسٹ کی سلسلہ وار کہانی ’’دیوتا‘‘ کے توسط سے ہوا جسے محی الدین نواب لگ بھگ 38برس تک لکھتے رہے۔یہ مقبول ترین سلسلہ وار کہانی تھی۔کہانی کا ہیرو فرہاد علی تیمور ٹیلی پیتھی کا ماہر ہے۔وہ لوگوں کے دماغ میں گھس کر ان کی سوچ پڑھ سکتا ہے۔دوست اور دشمن افراد کے ساتھ سوچ کے ذریعے واقعات اور کہانی کے نئے موڑ پیدا کئے گئے۔میں سکول میں تھا۔اردو بازار گیا اور ٹیلی پیتھی پر لکھی ایک دو کتابیں لے آیا۔ان میں شمع بینی کی مشقیں تھیں۔سانس روکنے کی مشقیں اور ارتکازبڑھانے کے کچھ دیگر طریقے تھے۔ ذکر اچاریہ بھاگیشور کا ہو رہا تھا۔ایک بھارتی چینل نے ایسے سماجی کارکن کو مدعو کر رکھا تھا جو توہمات‘ مذہب کے نام پر دھوکہ اور کرشموں کے نام پر ڈھونگ کو بے نقاب کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ مجھے ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ بھارتی سماج کی پسماندگی اتنی بھی بھیانک نہیں جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔کم از کم ہم سے تو بہتر ہیں وہ لوگ جو ایسے قوانین تشکیل دے لیتے ہیں کہ مذہب کے نام پر چھل فریب کرنے والوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔بھارتی سماجی کارکن بتا رہے تھے کہ انہوں نے توہم پرستی اور بابا کلچر کے خلاف کئی مقدمات درج کرائے ہیں صرف ہندو ہی نہیں ‘ ایسے مسیحی بابے جو بیماروں کے لیئے شفائیہ عبادات کے نام پر ڈھھونگ رچاتے ہیں ، مسلمان بابے بھی گرفتار کئے جو جن بھوت نکالنے کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ قدیم ہندوستان باقی دنیا سے علوم و فنون کے اعتبار سے بہت ترقی یافتہ اور منفرد تھا۔ہندو دھرم آیا تو اس کے چار وید زبانی یاد کرنا اعلیٰ علمی صلاحیت تصور کی گئی‘ ریاضی اور حساب دانی نے علم نجوم کو فروغ دیا۔البیرونی اگرچہ باہرسے آیا لیکن جہلم میں بیٹھ کر ہی اس نے زمین کے متعلق اپنے تجزیے ترتیب دیے۔جادو ٹونا اور منتر کئی علاقوں کی پہچان بنے ، یہ سب علم ہے، فنکاری ہے یا اسے کوئی دوسرا نام دیں ان کی موجودگی بہرحال رہی ہے اور اب بھی ہے۔حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کی لاہور آمد پر راجو جوگی کے ساتھ ایک مقابلے کی کہانی نسل درنسل چلی آ رہی ہے کہ شہر کے گوالے اگر جوگی کی نذر دودھ نہ کرتے تو بھینس کے تھنوں میں سے خون آنے لگتا۔حضرت سید علی ہجویری ؒ نے ایک گوالن سے دودھ مانگا تو اس نے جوگی کے خوف سے انکار کر دیا۔خیر جوگی نے ہوا میں اڑ کر اپنا کمال دکھایا تو داتا گنج بخشؒ کی جوتیاں اسے زمین لے آئیں۔اس راجو جوگی کی قبر احاطہ مزار داتا گنج بخش میں ہے۔ ممکن ہے یہ ساری صرف کہانی ہو لیکن ایسے واقعات سینکڑوں کی تعداد میں سنے گئے ہیں کہ کسی نے اپنے پاس آنے والے کے دل کا حال بوجھ لیا۔ ہندی میں جسے اندھ وشواس کہتے ہیں‘ پاکستان میں وہ صرف بابوں تک محدود نہیں‘ سماجی اور سیاسی اندھ وشواس کی بھی کمی نہیں۔ستم یہ کہ اگر کوئی اندھی سیاسی تقلید کو برا بتاتا ہے تو لوگ ان کا حقہ پانی بند کرنے پر تل جاتے ہیں۔ انسان کو سماج میں رہنا ہے‘ یہاں اس کے رشتے اور ناطے ہیں۔اسے یہ فہم ملتا ہے کہ پارٹیوں کے نام پر کچھ ڈھونگی خاندانوں نے لوگوں کو پیچھے لگا رکھا ہے‘ جو تقلید کرتے ہیں انہی کا خون چوسا جا رہا ہے جو غلام اور منشی بننے کو تیار نہیں وہ پکڑے جاتے ہیں۔