میلاد النبی کے موقع پر قومی رحمت اللعالمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر کے رویے کی مذمت کی اور کہا کہ نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی سے زیادہ مسلمان کے لیے کوئی عمل تکلیف دہ نہیں۔ انہوں نے اس کے انسداد کے لیے عالمی قانون سازی کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ اگرچہ مذہبی عقائد اور شعائر کی توہین کو کسی خاص آبادی کے خلاف نفرت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت پرانی ہے لیکن انسانی نسلوں اور ریاستوں نے جب ایک بین الاقوامی معاشرے کی صورت اختیار کرنا شروع کی تو ایسے آفاقی اصول وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی جو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان تصادم کو روک سکیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں سپین کے کیتھولک پادری سواریز اور ویٹوریا نے مذہبی حوالوں سے ثابت کیا کہ سپین کے بادشاہ پر فرض ہے کہ وہ امریکہ کے مقامی باشندوں کی تعظیم کرے۔ انٹرنیشنل لاء کے ایک اور ڈچ پروٹسٹنٹ قانون دان ہوگو گروشئیس نے سترہویں صدی میں اپنی تحریروں میں اقوام عالم کے لیے ایک عالمی قانون کی بات کی۔ 1648ء میں تاریخ کا ایک اہم قانونی معاہدہ ہوا۔ ویسٹ فیلیا معاہدہ عیسائیوں کے دو فرقوں پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس کے مابین برتری کی تیس سالہ خونریز جنگ کے اختتام پر ہوا۔ آدھا جرمنی اس مذہبی جنگ میں مارا گیا تھا۔ اس معاہدے کو 1945ء میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق (4)2 میں سمویا گیا۔ ویسٹ فیلیا ٹریٹی کے مطابق خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کی مداخلت کے بغیر اپنے ہاں مذہبی روایات کو فروغ دے سکتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران نسلی اور مذہبی بنیاد پر قتل و غارت کے اختتام پر اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر منظور کیا۔ اس چارٹر میں بہت احتیاط سے خیالات‘ شعور اور مذہب کے معاملات میں آزادی کو احترام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سول و پولیٹیکل رائٹس کو 1966ء میں متعارف کرایا گیا۔ دنیا کی 140 ریاستوں نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں۔ یہ کنونشن مذہبی آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ فی زمانہ ہمارے سامنے بعض ایسے واقعات آتے رہے ہیں جہاں مغربی ریاستوں نے اظہار رائے کی آزادی کو مذہبی آزادی پر قربان کردیا۔ ایسے واقعات رونما ہونے لگے جن میں قرآن پاک کونذر آتش کرنا‘ خاکے شائع کرنا‘ مسلمانوں کے لباس اور خواتین کے حجاب کو دہشت گردی سے جوڑنا اور عمومی طور پر مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کا اظہار شامل ہے۔دوسری طرف ہولو کاسٹ کے معاملے پر زبان کھولنا ممنوع قرار دیدیاگیا ۔ 1988ء میں سلمان رشدی کو ایک ناول میں مقدس شخصیات کے متعلق گستاخانہ انداز پر جب واجب سزا قرار دیا گیا تو مغرب نے اسے پناہ دی۔ 2010ء میں ایک امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کو جلانے کی جسارت کی۔صرف افغانستان میں جو پرتشدد ردعمل ظاہر ہوا اس میں بارہ افراد مارے گئے۔ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے اور فرانس میں پیغمبر خدا حضرت محمدؐ کے خاکوں کی وقفے وقفے سے اشاعت پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ مسلمان آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ کے 57 رکن ممالک سرکاری طور پر خود کو مسلم ریاست قرار دیتے ہیں۔ خود مغربی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی 2 فیصد سے لے کر 9 فیصد تک ہے۔ مقام حیرت ہے کہ معمولی معمولی مسائل پر عالمی قوانین وضع کرنے والی عالمی برادری ایک حساس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہے جس سے انتہا پسند گروہوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ انسانی خیز خواہی کے علمبردار مذاہب کو تصادم کا ذریعہ بنا کر بدامنی پھیلا سکیں۔عالم اسلام مجموعی طور پر بے حسی کا شکار ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر طیب اردوان کے سوا کوئی آواز بلند نہیں ہورہی جو مغرب کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے۔ گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے مغربی دنیا پر واضح کیا تھا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلسل مسلمانوں کی ان مقدس شخصیات پر حملے کر رہے ہیں جن کی حرمت ہر مسلمان کو اپنی جان سے عزیز ہے۔ حالیہ دنوں فرانس میں خاکے دکھانے اور ٹیچر کے قتل کے بعد وزیراعظم اور پاکستان کے عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ اس ردعمل کے باوجود حیرت اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری کا یہ سلسلہ روکا نہیں جارہا۔ اگر چہ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ جیسی چند ریاستوں نے اس معاملے کو داخلی سطح پر کافی حد تک قابو میں کرلیا ہے لیکن یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ میں ایسے واقعات نسلی‘ لسانی اور سماجی تعصب کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ توہین پر مبنی مواد‘ واقعات اور عمل کو روکنے کے لیے جنرل اسمبلی نے اب تک کسی ایسے کنونشن کی منظوری نہیں دی جس کو لاگو کر کے ایک عالمی قانون کی شکل دی جا سکے تاہم جنرل اسمبلی اور او آئی سی کی کچھ قرار دادیں موجود ہیں جن پر عملدرآمد قانونی ذمہ داری نہیں۔ ہر ملک میں توہین مذہب کا میونسپل لا موجود ہے لیکن اس کا اظہار رائے کی آزادی کیساتھ ٹکرانے کے بعد نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ ہر ملک کیلئے الگ الگ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان نے جنرل اسمبلی میں کچھ معاملات پر پیشرفت کی ہے۔ ووٹنگ کے بعد جنرل اسمبلی اگر انہیں کسی کنونشن کی شکل دے دیتی ہے تو اس سے ایک عالمی قانون کی صورت گری ممکن ہے۔ یہ سب بہت ضروری ہے لیکن اس کیلئے لازم ہے کہ مسلم ریاستیں پہلے خود کو منظم کریں اور مل کر توہین کی جسارتوں کے انسداد کے لیے بین الاقوامی قانون کی تشکیل کیلئے پرزور مہم چلائیں۔