سعودی عرب عالم ِ اسلام کے لئے ایک خاص مذہبی کشش رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی خاک ہم مسلمانوں کی آنکھوں کا سرمہ ہے۔ مگر جب سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے بطور وزیراعظم کمان سنبھالی ہے سعودی عرب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقوام ِ عالم کے لئے مرکز ِ نگاہ بن گیا ہے۔ ولی عہد نے جس انداز میں ویژن 2030ء پیش کیا اور اْس پر جس تیزی سے کام جاری ہے اْس کے متعلق خود انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے یہ نوید سنارہے ہیں کہ شاید ایک دہائی کے اندر سعودی عرب ایک ایسا جدید ملک کے روپ میں اْبھر کر سامنے آئے گا کہ لوگ صف ِ اول کے ممالک کی مادی و معاشی ترقی کی رفتار بھول جائیں گے۔ سعودی عرب کی مثال دیں گے۔ ترقی کا یہ ماڈل نہ صرف یورپی اقوام بلکہ مسلمان ممالک کے لئے بھی قابل ِ تقلید ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی معاشرتی و معاشی زندگی کو جس انداز میں تبدیل کرنے کا بیڑہ اْٹھایا ہے وہ اِس مقدس سرزمین کے شاندار مستقبل کی گارنٹی مانا جا رہا ہے۔ ریاض کی پختہ ِ صاف و شفاف اور شاندار سڑکوں اورپرشکوہ عمارتوں کو دیکھ کر اہل ِ یورپ پیرس کو بھول جاتے ہیں۔ ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب کے شمال مغربی صوبہ تبوک میں دنیا کا سب سے جدید ترین شہر ’نیوم‘ بنایا کیا جارہا ہے۔ ایک ایسا شہر جس میں دنیا بھر کی تمام آسائشیں مہیا ہونگی۔ ولی عہد کے ویژن کے تحت اِس شہر میں ایسے پارکس، کھیلوں کے میدان،اعلیٰ تعلیمی ادارے،جدید جزیرے اور تفریحی مقامات تعمیر کئے جارہے ہیں جہاں عالمی کھیلوں اور دیگر مقابلے منعقد کرائے جاسکیں گے۔ آنکھوں میں چمک اور تکمیل کے جذبے کا عزم لئے ولی عہد سعودی عرب پانچ سو ارب ڈالرز کی لاگت سے نیوم شہر کو تعمیر کرنے جار ہے ہیں جس کا وجود اقوام ِ عالم کے لئے کسی عجوبے سے کم نہ ہوگا۔اس شہر میں رہنا تو حسرت، صرف دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے سیاح یہاں پہنچیں گے۔ ولی عہد نے ’قومی دانشورانہ املاک کی حکمت ِ عملی‘ یا NIPSTکے نام سے ایک نیا اقدام اْٹھایا ہے جس کے تحت چار اصولوں پر کام ہو رہا ہے جن میں ’تخلیق، انتظامیہ، کمرشلائزیشن اور حفاظت‘ شامل ہیں۔ اس پروگرام کے مطابق قومی سطح پر کار آمد عوامل اور متعلقہ افراد کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ قومی ترقیاتی منصوبہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اگلی ایک دہائی کے اندر اندر سعودی عرب کو صف ِ اول کا جدید ترین ملک بنانے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ اِس ویژن کے مطابق فنانشل سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام،مالیاتی پائیداری پروگرام، صحت سیکٹر ٹرانسفارمیشن پروگرام، رہائشی پروگرام، انسانی ترقیاتی، قومی صنعتی اور لاجسکٹ قومی بحالی، حج کی سفری اور دیگر سہولیاتی پروگرام، نجکاری، سرکاری انویسٹمنٹ فنڈ اور معیاری زندگی جیسے کئی پروگراموں کو اس ویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب کی چودہ سو سال سے زائد تاریخی زندگی میں پہلی بار اسلام کے بنیادی عقائد کے مطابق انسانی فلاح، معیاری زندگی، خوشحالی، عالمی روابط، پائیدار ترقی کے اہداف اور بین الاقوامی تجارت کے اصولوں پر کام ہورہا ہے۔ خواتین کی پہلی بار تجارت سمیت دیگر امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے نہ صرف حوصلہ افزائی کی جارہی ہے بلکہ انہیں جدید سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اگرچہ یہ سب خواب جیسا لگتا ہے مگر یہ سب ولی عہد و وزیراعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن کے مطابق سعودی عرب میں ہو رہا ہے۔ جسے دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے۔کام اِسی رفتار سے جاری رہا تو شاید ایک دہائی کے اندر اندر سعودی عرب ایک جدید اور شاندار ملک بن کر عالمی دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے موجود ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کو دنیا محض تیل پیدا کرنے والا ملک کے طور پر جانتی تھی۔ سعودی عرب کے کئی طاقتور بادشاہوں نے سعودی عرب کی اِس معاشی حالت کو بدلنے کے لئے کوششیں ضروری کی ہونگی مگرکسی نے شاید یہ نہیں سوچا ہوگا کہ صحیح معنوں میں سعودی عرب کو جو شخص بدل کررکھ دے گا وہ محض چھتیس سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہوگا۔ ولی عہد کے عزم، جدید سوچ اور ترقی پسندانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے اگرچہ کئی عالمی میڈیائی اداروں نے یہ سوچ پروان چڑھانے کی کوشش کی کہ کسی طرح اْن کی کردارکشی کی جاسکے مگر جنہیں اللہ عزت دے بھلا انسان اْن پہ داغ کیسے لگاسکیں۔ یہی کچھ سعودی عرب میں ہوا۔کہ ولی عہد پر تنقید کرنے والے پیچھے رہ گئے اور وہ سعودی عرب کو آگے لے آئے۔ گزشتہ چند سال سے جس انداز میں اِس ولی عہد نے سعودی عرب کو روایت سے جدت کی طرف چلانے کے لئے عملی اقدامات کیے ہیں وہ صفِ اول کے ممالک کے حکمرانوں کو ورطہ ِ حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہیں۔ وہ سعودی عرب کو دنیا کا جدید ترین ملک بنا نے کا دم رکھتے ہیں اور سعودی عرب کو جدید سعودی عرب بنانے کی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ولی عہد سعودی عرب نے دنیا سمیت دیگر ممالک کے لیڈران پر بھی عیاں کردیا ہے کہ اگر نیت ٹھیک ہو، اور ملک کی قسمت بدلنے کی ہمت ہو تو سبھی دنیاوی مشکلات عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر ایک جواں سال ولی عہد ملک بدلنے کا دم رکھتا ہے تو دیگر ایشائی اور جنوبی ایشائی ممالک خصوصاََ ہمارے ملک کے قائدین اور حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر نیت درست ہو تو اللہ کی مدد بھی شامل ِ حال ہوسکتی ہے۔ اِس وقت سعودی عرب کے عوام ولی عہد کو جس انداز میں آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں وہ صرف ولی عہد کے مرتبہ کے سبب نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز ال سعود سے قبل بھی سعودی عرب کے کئی ولی عہد ہوگزرے ہیں مگر انہوں نے چند ہی سال میں سعودی عرب کو تعمیری سوچ کی اٹھان بخشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویژن 2030ء کے تحت صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورا گلف دنیا پر اپنی سماجی، معاشی، تجارتی اور معاشرتی ترقی کے دروازے کھولنے لگا ہے۔ کاش ہمارے حکمرانوں کو اِس جواں سال ولی عہد کے آہنی عزم سے ہی کچھ سیکھ لیں۔