نہ جانے مجھے آج کیوں یادآیا کہ نصرت علی خاں نے مجھے پاس بٹھا کر میری ایک غزل کمپوز کی تھی جس کا ٹریک حاجی اقبال نقیبی کے پاس ہو گا: اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لئے وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے اب بتائیے اس غزل کا تعلق مہنگائی سے کیسے جڑ سکتا ہے۔ بس ایسے ہی ذہن میں غیر متعلقہ شعر گھس آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے شعر یعنی مطلع کا تعلق گرانی سے بنتا ہو۔ واقعتاً کہ موجودہ حالات نے غریب سے خوشیاں چھین لی ہیں۔ میں کوئی سنی سنائی یا روایتی بات نہیں کر رہا۔ میں خود اپنے گھرکا سودا سلف خرید کر لاتا ہوں تو کچھ نہ کچھ اس اذیت سے ضرور گزرتا ہوں۔ مثلاً کل میں نمک کا پیکٹ لے کر آیا تو وہ بیس روپے کی بجائے تیس روپے کا ہو چکا ہے۔ اور آپ اس مثال کو آٹے میں نمک ہی سمجھئے۔ آج کل آم کی بہار عام ہے اور ہم بھی غالب کے معتقد ہیں کہ آم میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں مگر جب آم ڈیڑھ سوروپے کلو سے کم نہیں ملیں گے تو وہ زہر ہی لگیں گے۔ صرف انگور ہی کھٹے نہیں ہوتے آم بھی رسائی سے باہر ہوں تو کھٹے ہو جاتے ہیں۔ آلو بخارے کا ریٹ پوچھیں تو آپ کو بخار ہو جائے گا، یہ دو صد روپے کلو ہے، اب تو یہ بلخ اور بخارا والے ہی کھائیں گے۔ یقینا حکومت کہے گی کہ فروٹ تو غریب کا مسئلہ نہیں وہ فروٹ کھاتے ہی نہیں، جیسے چینی کے مہنگا ہونے پر وہ کہتے ہیں کہ چھوڑیے چینی کو یہ تو سفید زہر ہے: خان خاناں کی مہربانی ہے اس گرانی کا کیا کرے کوئی دودھ ایک صد کی بجائے ایک سو بیس روپے ہو چکا ہے۔ اصل میں مہنگائی کسی ایک چیز کی قیمت نہیں بڑھاتی بلکہ سب کو یکساں سرفراز کرتی ہے اس لئے تو حکومت کہ کہنا پڑتا ے کہ پٹرول بجلی اور گیس کی گرانی سے غریب متاثر نہیں ہو گا۔ حالانکہ اسی بے چارے کے کڑاکے نکل جاتے ہیں۔ حالیہ بجٹ نے تو عام آدمی کا ماہانہ بجٹ سے تلپٹ کر دیا ہے ضروریات زندگی ہی نے جان نکال دی ہے۔ ٹھہریے میں آپ کو تعمیر کی طرف لے چلتا ہوں جہاں ایک دو یوم ہی میں سیمنٹ کی بوری 680روپے تک جا پہنچی ہے۔ ریت کی ٹرالی تین صد تک بڑھی ہے اینٹ جو کہ بنیادی اکائی ہے دس ہزار روپے ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ سیمنٹ دیتے ہوئے دکاندار کہتا ہے کہ یہ پیچھے سے آنا بند ہو گیا ہے یعنی بوریاں سٹور کر لیں۔ اگر ایک چیز بھی بند ہوتی ہے تو تعمیراتی کام بند ہو جائے گا اور اس سے وابستہ ہزاروں نہیں لاکھوں مستری اور مزدورکدھر جائیں گے۔ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ تو لوگوں کو کروڑ گھر بنا کر دے رہے تھے اور اب آپ نے گھر بنانے والوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ آپ کے فقرے اب تک کانوں میں رس گھولتے آئے ہیں کہ دوسرے ملکوں سے لوگ یہاں نوکریاں کرنے آئیں گے اور یہ کہ دوسرے ملک ہم سے قرض مانگا کریں گے: خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے بس پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور مستقبل کے منصوبے بن رہے ہیں ۔یہ ہو گا وہ ہو گا اور یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ مجھے پتہ نہیں کیوں منیر نیازی کی ایک بات یاد آئی کہ وہ ایک تقریب میں بیٹھے تھے جس میں علی سردار جعفری انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ نیازی صاحب نے ساتھ بیٹھے شخص سے کہا’’دیکھو یہ کتنی روانی سے انگریزی بولتا ہے جتنی روانی سے جھوٹ بولا جاتا ہے ۔خیر یہ مزیدار باتیں اپنی جگہ مگر فردوس عاشق اعوان کی باتیں بھی بڑے مرچ مسالے والی تھیں۔ دیکھا جائے تو محترمہ کے انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے سامنے فواد چودھری اور فیاض چوہان پانی بھرنے والے ہیں۔ واقعتاً وہ عمران خاں کی صحیح ترجمان ہیں۔انہیں پسینہ تک نہیں آتا۔ ہاں کہیں کہیں ہنس ضرور پڑتی ہیں۔ مثلاً انہوں نے نواز شریف کی خوراک کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ کیسا دل کا مریض ہے جو ہریسہ ‘ بونگ پائے وغیرہ طلب کرتا ہے۔ اس کے اوپر 21ڈاکٹرز ڈیوٹی پر ہیں۔ گویا یہ 21توپوں کی سلامی کے مترادف ہے۔ میں نے ان کی ساری پریس کانفرنس سنی اور انہوں نے بڑی کامیابی سے موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور عملداریوں کا دفاع کیا۔ پھر مجھے ایک اسمبلی ممبر کی تقریر یاد آ گئی کہ کچھ لوگ چار پانچ حکومتوں کا دفاع کرنے آ رہے ہیں۔ تو بھائی یہی تو فنکاری ہے۔ پھر مجھے شہاب نامہ کے شہاب صاحب یاد آئے جنہوں نے ایوب خاں کو کہا تھا کہ وہ کام کر کے تھک گئے ہیں مگر وہ شہاب صاحب کے ساتھ ان کی ایک بہت بڑی خوبی کے باعث کام کریں گے۔ ایوب خاں نے خوش ہو کر پوچھا کہ ان کی خوبی کے بارے میں انہیں بھی بتایا جائے تو شہاب صاحب نے کہا’’کیونکہ آپ خوشامد پسند نہیں کرتے‘‘بہرحال ‘ فردوس عاشق اعوان نے قوم کو بہت تسلیاں دیں اور خاں صاحب کی رہنمائی کو بہت سراہا: ایک احساس پس حرف تسلی اس کا کاش وہ گھائو لگاتا تو مجھے تلوار کے ساتھ انہوں نے سینئر سٹیزن کو عزت و احترام دینے کی بات کی اور طفلان قوم کے لئے منصوبہ بندی کا تذکرہ کیا۔ سٹیل مل کی بات کی کہ اسے بھی وہ باہر سے آنے والے انوسٹرز سے مل کر چلائیں گے۔ بہت سی باتیں جن میں اچھی بھی تھیں انہوں نے روانی سے ادا کیں۔ یہی باتیں اگر خود چودھری کرتے تو بے معنی ہو جاتیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئی پی پیز کو بجلی کے پیسے ادا کرنے ہیں اور خزانہ خالی ہے۔ لہٰذا 25 فیصد بوجھ لوگوں پر ڈالا جا رہا ہے اس بوجھ سے عام آدمی کی کمر ٹوٹتی ہے یا بچتی ہے ایک سوال ہے۔ بعض اوقات اونٹ کے بوجھ پر چھاننی کا بوجھ بھی فیصلہ کن ہوتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان مشکل ترین بات بڑی آسانی سے کہہ جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا: اس نے مجھ سے کہا مسکراتے ہوئے ہر جگہ مسکرانا ضروری نہیں بہت ساری باتیں گفتنی ہیں مگر جگہ نہیں تاہم رانا ثناء اللہ کا تذکرہ ضروری ہے کہ فردوس عاشق اعوان نے بھی ان کانام لیے بغیر بہت کچھ کہا۔ معزز قارئین! اس کے باوجود کہ یہ شخصیت مجھے کبھی نہیں بھائی کہ دوسرے ن لیگ کے طلالوں کی طرح وہ بھی فری سٹائل زبان استعمال کرتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ کہ رانا صاحب کو میڈیا پر بہت کلوری فائی کر کے پیش کیا گیا۔ وہ عام دیکھنے میں کوئی ایسے پرکشش نہیں۔ کیا واقعتاً یہ سب کچھ لوگوں یک توجہ مہنگائی سے ہٹانے کے لئے ہے۔ بات وہی ہے کہ عوام کو ریلیف ملے گا تو بات بنے گی۔ وہی جو حسن نثار نے کہا کہ اگر نواز شریف اور زرداری عوام کو خوش رکھتے ہیں تو مجھے ان کی کرپشن سے سروکار نہیں۔ تاہم میں اس موقف کا حامی نہیں۔ مگر یہ کیوں ہوا کہ دونوں نے ہمیں کرپشن سے مارا اور تیسرے نے اپنی ایمانداری سے ہمیں بے حال کر رکھا ہے۔ ٹیکس پر ٹیکس بھی اپنی جگہ تنخوادار جن کی تنخواہ ایک لاکھ ہے انہیں اڑھائی ہزار ٹیکس ڈال دیا گیا۔ انکم ٹیکس ان کا تو پہلے ہی کٹتا ہے اب کے جیب کٹی ہے کہ تنخواہوں کی بڑھوتری ساری برابر ہو گئی بلکہ الٹا نقصان ہوا۔