اظہار شاہین نے کہا تھا: اپنے ہونے کا پتہ دے کوئی شیشہ کہیں گرا دے یہ انسان کی جبلت ہے کہ وہ توجہ مانگتا ہے اپنے ہونے کا اظہار چاہتا ہے اور کائنات کی آنکھوں سے گزرنا چاہتا ہے۔ایک تخلیق کار میں یہ خواہش مزید شدت اختیار کر جاتی ہے اور کبھی کبھی تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘ کبھی کبھی تو وہ فطرت کو بھی ہم رنگ کر کے سوچتا ہے اور خود ہی مظاہر کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ محرومی بہت کچھ عطا کر جاتی ہے شکریہ تیرا کہ تونے ہمیں زندہ رکھا۔ ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے‘ محرومی جسمانی بھی ہو تو ہمت والوں کو اس کے بدلے میں کچھ اور عطا کر جاتی ہے۔ اپنی محرومی کا اظہار ہنرمندی سے کرنے والے حیران کر جاتے ہیں۔ مثلاً مجھے اقبال عظیم کی نعت کا شعر ہمیشہ لطیف احساس سے بھر دیتا ہے: بصارت چھن گئی مجھ سے بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ ایسا خوبصورت اظہار وہ کبھی نہیں کر پاتا جو بینا ہواور آنکھیں رکھتا ہو۔ یہ تو باطن کی نظر سے کہا گیا شعر ہے۔ مجھے تیمور حسن تیمور کا ایک شعر یاد آ رہا ہے: میں نے دیکھا نہیں محسوس کیا ہے کچھ تیری اندازے سے تصویر بنا سکتا ہوں وہ جو چلنے پھرنے سے محروم ہوتے ہیں تو ان کا دماغ سفر پر نکل جاتا ہے۔فطرت کہیں نہ کہیں Compensateضرور کرتی ہے۔ ایک حس کے منقطع ہونے سے دوسری حسیات زیادہ فعال ہو جاتی ہیں۔مگر میں تو ایک تخلیق کار کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہیں گل افشاں رانا۔مجھے برادر اشرف شریف نے ایک شعری مجموعہ ’’ہچکی لیتا سورج‘‘ تھما دیا کہ محترمہ سعدیہ قریشی نے میرے لئے دیا ہے۔ سعدیہ قریشی بھی اس پر ایک کالم تحریر کر چکی ہیں۔ خیر میں نے ان مجموعہ کو چیدہ چیدہ دیکھا اور پھر یہ کہیں کتابوں میں کھو گیا۔ میں کیاکروں کہ میرے اردگرد کتابوں کا یہی حال ہے۔ سب کتب پر آپ نہیں لکھ سکتے۔ پھر میگزین اور رسائل کہ اوڑھنا بچھونا ہیں آج کتاب ملی تو میں نے سوچا کہ اس حوصلہ مند لڑکی پر لکھنا ضروری ہے کہ جس نے اپنی کسی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ویسے بھی تخلیقی طاقت زیادہ زور آور ہوتی ہے۔ یہ اظہار مانگتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے ۔بات اٹھائی جائے تو بہت دور تلک جاتی ہے کہ غالب نے کہا: منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی تیرے قدو رخ پر ظہور کی یقینا آپ میرا مقصد و مدعا پا گئے ہونگے کہ یہ خواہش سنت بھی تو ٹھہری۔ گل افشاں رانا ایک سچی اور کھری تخلیق کار ہیں جنہیں قدرت نے صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ وہ اپنے وجود کا اظہار کر سکیں۔ وہ اپنے حال پر خوش ہیں۔ نوشی گیلانی کا مصرع یاد آ گیا’’میرے مولا تیری مرضی تو جس حال میں رکھے‘‘ اس نے اپنی زندگی کو بے رنگ اور بدصورت نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اس نے اسے اپنے خوابوں ‘ امنگوں اور آرزوئوں کے حساب سے مزین کیا۔اس کا احساس اپنی جگہ ہے کہ جسے وہ چھپا نہیں سکتیں: جو اب سکون سے بیٹھی ہے وہیل چیئر پر جہاں بھر کا کبھی آسرا تھی یہ لڑکی پھر وہ شعور کی منزل پاتی ہیںتو دوسروں کا آسرا بننے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس کا مصرف بھی اس کائنات بسیط میں موجود ہے کہ وہ بھی مظاہر کا حصہ ہیں: تیری راہوں کے اندھیرے دور کرنے کے لئے سو گیا جو چاند سورج کو جگا لائوں گی میں دوستوں نے گل افشاں رانا کے ضمن میں ہیلن کیلر کے Three days to seeکا حوالہ بھی دیا ہے۔ تاریخ میں ایسے حوالے بکھرے پڑے ہیں کہ قدرت جب چاہتی ہے وہ مٹی کو پر لگا دیتی ہے۔انسان کو بھی تو قدرت نے اڑایا اور وہ خلا کیا چاند تک بھی پہنچ گیا۔ مجھے ایک مثال ملٹن Miltonکی ایک عجیب سرشاری سے ہمکنار کرتی ہے شاید آپ نے بھی اس کی نظم Blindnessپڑھی ہو جس میں وہ اندھا ہو جانے کے بعد اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ اب تو وقت آیا تھا کہ وہ اپنے علم کو بروئے کار لا کر اللہ کے لئے حمدیں کہتا اور توصیف و تعریف کے نغمے لکھتا۔ پھر وہ خود ہی حقیقت کا عرفان کر کے کہتا ہے کہ اللہ کو اس توصیف کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس کی عبادت کے لئے کروڑوں فرشتے مصروف عبادت ہیں اور کروڑوں کی تو ابھی باری نہیں آئی۔ دیکھا جائے تو ملٹن نے خدا کا تعارف تو کروا دیا۔ یہ ہنر اور یہ اظہار اسے اسی Blindnessنے دیا کہ اس نے خوبصورت شکرانہ پیش کر دیا اور راضی برضا ٹھہرا۔دیکھئے تو سہی ہماری شاعرہ کیا اچھا اظہار کرتی ہے: اب حقیقت کا کرب ہے مجھ میں کل کی بے جا خوشی فسانہ تھی اس نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی۔ میں ہرگز نہیں لکھوں گا کہ اسے فن پر دسترس ہے کہ شاعری کا فن عمر کے ساتھ ساتھ وہ سیکھ جائے گی۔ اتنا کافی ہے کہ وہ ایک اوریجنل شاعرہ ہے۔علم عروض ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس کی طبیعت موزوں ہے: تم تو ہنستے ہو تو پھولوں کی ادا لگتے ہو اور جب بولتے ہو باد صبا لگتے ہو اک تبسم ہزار شکوں کا کتنا پیارا جواب ہوتا ہے اس کی نظم پیغام امید اس کی نمائندہ نظم ہے۔ ظاہر ہے پوری نظم تو لکھی نہیں جا سکتی۔ درمیان سے کچھ سطور دیکھیے۔ کتنے جلتے چراغوں کی پھیلی ہوئی روشنی گنگناتی ہوئی میری سانسوں کے اندر اترنے لگی ساری محرومیاں سب پریشانیاں جو اندھیرے میں تھیں ختم ہونے لگیں آزمائش کی گھڑیاں رکیں ساری دشواریاں مشکلیں وہیل چیئر کے پہیوں کے نیچے روندتی۔ میں بھی چلنے لگی گل افشاں رانا کے ایک شعر کیساتھ اجازت: کبھی ہاتھوں کے بل کھسکو کبھی کرسی پہ پہیوں سے تقاضا ہے کہ منزل کی طرف پیہم چلا جائے