مجھ ساکوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو انسان سو دو زیاں سے نکل جائے توسارے معاملات حل ہو جاتے ہیں مگر اس جہان رنگ و بو میں ایسا ممکن نہیں۔ ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو صرف ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے‘ کوئی کندن بنتے بنتے رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر خضر یاسین نے ایک شخصیت کی جانب میری توجہ مبذول کروائی تو میں نے کہا کہ یہ کیسی بدقسمتی ہے کوئی بلا کا ایماندار ہو مگر لالچی اور کمینہ بھی ہو۔ ڈاکٹر صاحب چلتے چلتے ٹھہر گئے اور کہنے لگے یہ تو قول زریں ہے۔ ایک دم پیراڈوکس ۔ یہ کوٹ ہے، میں مسکرانے لگا کہ قبلہ یہ تو میں نے بے ساختہ کہہ دیا کہ مقطع میں آ پری تھی سخن گسترانہ بات وگرنہ روئے سخن ہو یار کی جانب تو ’’سیاہ‘‘ ویسے یہ پیراڈاکس بھی عجیب شے ہوتی ہے۔ جن دنوں میری انگریزی نظموں کا مجموعہ تیار ہوا تو میں نے اپنے استاد محترم کے سامنے ایک ترکیب کہیBlinking storeمیری مراد تھی کہ لگاتار دیکھنا مگر آنکھیں جھپکتے ہوئے سر افتخار نے مخمور نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ یہ تو Paradoxہے چنانچہ میرے شعری مجموعے کا نام یہی ٹھہرا۔ یہ تضادات بڑے لوگوں میں ہوتے ہیں۔ کسی مقام پر آپ اسے کنٹراسٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے جیسے خواب اور حقیقت کا ملاپ یا وصال۔ آپ ہجر و فراق بھی کہیں تو بات ایک ہی ہے۔ خواب نہ ہوں تو آنکھیں کس کام کی جبکہ خواب بند آنکھوں پر اترتے ہیں۔ ہاں جاگتے میں بھی خواب دیکھے جاتے ہیں جنہیں Day dreamsکہا جاتا ہے۔ ہم ورڈز ورتھ کے ہاں ایسی خوبصورت نظمیں دیکھتے ہیں کہ کھلی آنکھوں پر منظر بدلتے جاتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کہیں اور ہوتے ہیں اور آپ کا دماغ کہیں اور پہنچ جاتا ہے کہ کوئی ملتا جلتا سامنے کا منظر آپ کے تخیل کو متحرک کرتا ہے اور تخیل آپ کو انگلی تھام کر وہاں لے جاتا ہے جہاں آپ کی واردات تھی۔ یہ قدرت کے کرشمے ہیں یہ انسان پر عنایت ہے۔ دل بھی کیسی شے ہے دیکھو پھر خالی کا خالی گرچہ اس میں ڈالے میں نے آنکھیں بھر بھر خواب خواب تو ہم بہت دیکھتے ہیں مگر تب سے خواب بھی بند ہو گئے ہیں۔ جب سے مہنگائی نے ہماری نیندیں اڑا دی ہیں۔ نیند کا اڑنا بھی اچھی بات ہے کہ زیادہ سونا بھی صحت کے لئے اچھا نہیں مگر اتنا جاگنا درست نہیں کہ بندہ شہباز شریف بن جائے کہ نہ خود سوئے اور نہ دوسروں کو سونے دے۔ مگر اب تو جیسے میرا پورا لاہور ہی سویا پڑا ہے کہ سب ترقیاتی کام رکے پڑے ہیں اور اورنج ٹرین کا سٹرکچر آثار قدیمہ کی کوئی شے لگنے لگا ہے۔ میرا لٹیا شہر بھنبور نی اربوں روپے اس قوم کے سب کا منہ چڑا رہے ہیں۔ آپ میری باتوں کو بہکی بہکی باتیں کہہ لیں مگر یہ آپ کے دل کے تار بھی چھیڑتی ہیں۔ پورے پنجاب کی قیمت کیا ہے ایک عثمان بزدار۔ اب تو ایسے لگنے لگا ہے کہ ہمارا اور کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ ساری سیاست بزدار صاحب کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ آپ کہہ لیں کہ وہ سیاست سخن میں ٹیپ کا مصرع ہیں جسے عمران خاں دہرائے جا رہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے سازشیں جاری ہیں اور انہی کے ساتھ سازشیں بے نقاب کی جا رہی ہیں: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تو تھے ذرا ٹھکانے سے شیخ رشید فرماتے ہیں کہ عثمان بزدار اور عمران خاں کہیں نہیں جا رہے۔ گویا یہ ایک پیغام جو کہیں سے جاری ہوا ہے۔ اس سے پہلے عمران خاں پہلے تھا اور پھر عثمان بزدار۔ اب ترتیب الٹ گئی ہے۔ مجھے یاد ہے جن دنوں ہم ٹی وی جایا کرتے تھے تو کسی کے ساتھ کوئی مہمان آتا تو لکھا جاتا مثال کے طور پر عمران 1+لکھا جاتا کہ عمران کے ساتھ ایک مہمان ہے۔ کچھ عرصہ بعد مہمان اپنے قدم جما لیتا تو پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مہمان کا نام سامنے آتا اور عمران کو پلس ون لکھا جاتا۔ وقت بڑا ظالم ہے‘ کس کو کیا بنا دے کوئی نہیں جانتا۔ اب تو پختون خواہ میں ہلچل شروع ہو گئی ہے تین وزیر برطرف کر دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف بھی پیش رفت نظر آ رہی ہے کہ زرداری نے شہباز شریف کو پیغام بھیجا ہے اور فضل الرحمن کو منانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تیسری طرف عوام ہیں کہ ان کو دو ٹوک جواب ہے کہ سکون اپنی زندگی میں تلاش نہ کریں: تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا صوفی ازم کی تعلیم کو بھی عام کرنا فائدہ مند رہے گا۔ سلیبس کا حصہ بن جائے تو اور بھی اچھا۔ اس طرح لوگوں کی خواہشات بھی کم ہو جائیں گی اور توقعات بھی قناعت اور صبر آ جائے گا کچھ بندوبست تو آپ نے پہلے بھی کر دیا ہے کہ روٹی کا مسئلہ بھی طعام گاہیں حل کر دیں گی اور رہائش کا معاملہ قیام گاہیں اور چاہیے بھی کیا۔ ہو سکتا ہے آپ میری باتوں کو غالب کے شعر کے مصداق سمجھیں: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی جو بھی بات خواب سے حقیقت کی طرف آ رہی ہے خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنما آپس ہی میں رونق لگانے لگے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں اور وہ غلط بھی نہیں ہیں فردوس عاشق اعوان نے معصومیت میں حقیقت بیان کر دی کہ ان کے لوگ عثمان بزدار کے بہانے دراصل عمران خاں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ غلط فواد چودھری نے بھی نہیں کہا کہ وزراء باشاہوں کی طرح behaveکر رہے ہیں مجھے اس لفظ کا اردو نہیں ملا اس بات کو چھوڑیے کہ عوام کیا کہہ رہے ہیں اور میڈیا ان کی نمائندگی کیا کر رہا ہے کیونکہ عمران خاں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے‘ مگر یہ کسی طرح سے ان کو معلوم ہو گیا ہے کہ اخباروں میں ان پر تنقید ہو رہی ہے اور وہ تنقید کی پروا نہیں کرتے۔ وہ تاہم آخری بال تک کھیلیں گے دیکھیے آخری بال انہیں کون کھلاتا ہے۔ کرپشن کے بارے میں جو مرضی رپورٹیں آتی رہیں مگر پی ٹی آئی کا منشور کرپشن کا خاتمہ ہی رہے گا۔ یہ بات بہرحال درست ہے اور حکومت کے خلاف جو بھی بات کرتا ہے وہ مافیاز میں سے ہے۔ موسم بدلنے کو ہے کہ چند روز میں بہار کی آمد آمد ہو گی کونپلیں پھوٹیں گی۔ بہار کا لمس سب کچھ بھلا دے گا۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا تو نہ رسوا ہو اس لئے ہم نے اپنی چاہت پہ دائرہ رکھا