پریشان کن اور تشویش ناک خبروں کے درمیان ایک حوصلہ افزا بلکہ ناقابل یقین سی خبر ہم نے پڑھی اور پڑھ کر ابھی تک حیرت سے گم سم ہیں۔ یہ خبر ممتاز سائنس دان ڈاکٹر عطا الرحمن کے حوالے سے آئی ہے کہ پاکستان نے تحقیق کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب پاکستان کا اس میدان میں مقابلہ دوست ملک چین سے ہے۔ چونکہ ہم پچھلے تیس برسوں سے تعلیم و تعلّم ہی کے پیشے سے وابستہ ہیں اور تحقیق و تدریس کا ہماری یونیورسٹیوں میں جو حال ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بے شک ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کوششوں سے ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً جو اساتذہ تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان ڈگریوں کے بغیر ترقی کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں‘ دوسری وجہ ایم فل‘پی ایچ ڈی الائونس ہے جس کی وجہ سے اساتذہ مجبور ہیں کہ وہ ان ڈگریوں کے حصول کی شرط کو پورا کریں۔ عام مشاہدہ ہے کہ اساتذہ پی ایچ ڈی کرنے کو منزل مقصود سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ چوں کہ پروفیسر کے عہدے تک پہنچنے کے لئے بھی مخصوص تعداد میں تحقیقی مقالات کی اشاعت کو ضروری کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا مطلوبہ تعدادمیں تحقیقی مقالات بھی دفتری قوانین کی مجبوری ہی ترقی پانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر اساتذہ میں ذوق علمی کی کمی اور تحقیقی مزاج کا فقدان ہوتا ہے۔ پھر اساتذہ انجمنوں نے اپنے اساتذہ میں جو ٹریڈ یونین مزاج پیدا کر دیا ہے اس کے سبب یونیورسٹیوں میں علمی مباحث اور تحقیق و تفتیش کی فضا کی وجہ حقوق و مراعات کے حصول کی سیاست اور نعرے بازی نے لے رکھی ہے چونکہ ملک کی بیشتر پبلک یونیورسٹیوں میں یہی فضا عموماً ہے اس لئے ہمیں ڈاکٹر عطا الرحمن کے بیان پر خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی اس لئے کہ جہاں تک ہمیں علم ہے بھارت میں سائنسی علوم تو ایک طرف صرف سماجی علوم ہی میں ہر سال جتنی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں‘ جتنے تحقیقی مجلے نکلتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ہمارے ملک میں شائع نہیں ہوتے۔ رہی بات سائنس کی تو ملک میں سائنسی تعلیم ترقی کیسے کر سکتی ہے جہاں یونیورسٹیوں کو گرانٹ دینے والی حکومت کی نظر میں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کی کوئی اہمیت نہ ہو جس ممبر اسمبلی کو سیاسی رشوت دینی ہو اسے سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا جاتا ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی کہ وزیر موصوف کا سائنس و ٹیکنالوجی سے کوئی علاقہ‘ کوئی دلچسپی ہے بھی یا نہیں۔ سائنس کے علم اور سائنسی شعور سے بہرہ ور ہونے کی بات تو چھوڑیے اس کا تو ہمارے ملک میں ویسے ہی قحط ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اپنی تقریر میں دوسرے ملکوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کوریا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کا مرتبہ ڈپٹی وزیر اعظم کے برابر ہوتاہے۔ آسٹریا میں بھی سائنس کے وزیر کو یہی درجہ حاصل ہے۔ ہمارے ہاں کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ کابینہ کے کچھ وزیروں کو نکالا گیا اور کچھ کی وزارتیں بدلی گئیں تو جو وزیر موصوف اطلاعات و نشریات کی وزارت کے نا اہل قرار پائے انہیں خوش اور راضی رکھنے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت تھما دی گئی اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موصوف اس وزارت کا خود کو کتنا اہل ثابت کر سکیں گے؟ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ فیصلہ ان وزیر اعظم صاحب کا ہے جو ملک کو بام ترقی پر پہنچانے کی خواہش یا دعویٰ رکھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ترقی کا خواب سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر محض دیوانے کا خواب ہے مغرب کے ہاتھوں میں اگر دنیا کی قیادت ہے تو اس کی وجہ تحقیق و سائنس کی دنیا میں ان کی حیرت انگیز کامیابیاں ہیں۔ یورپ نے نشاۃ ثانیہ کے بعد پندرھویں سولہویں صدی سے ترقی کا جو سفرشروع کیا وہ آج بھی رکا نہیں۔ اختراع و ایجادات‘ کائنات، وقت اور حیات انسانی کی بابت مسلسل و متواتر تجربات اور ان سے اخذ شدہ نظریات نے پوری دنیا کو نہ صرف محیر العقول طریقے سے بدل کر رکھ دیا بلکہ نت نئے حقائق کے انکشاف نے انسان کو ایک نیا کائناتی تصور دیا۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں علمی بیداری کے بعد یورپ کے سائنس دانوں اور محققوں نے اپنے علم کی بنیاد عقل‘ تجربہ اور مشاہدہ پر رکھی۔ علم کی وہ دنیا جو یونانی فلسفی ارسطو اور بطلیموس کے نظریات پر پندرہ صدیوں سے یقین کرتی چلی آئی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے اور سورج‘ چاند اور تمام سیارے زمین ہی کے گرد محو گردش ہیں۔ کوپرینکس اور گیلیلیو نے ان نظریات کو اپنے تجربے اور سوچ بچار سے غلط ثابت کر دیا چونکہ یہ نظریات اس زمانے کے مسیحی عقائد کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔ نتیجے میں کوپرینکس کو تو اپنی کتاب پہلے تو چھپوانے کی ہمت نہ ہوئی اور جب ہمت پڑی تو اس نے سفرا سے بچنے کے لئے اسے بادشاہ کے نام سے معنون کر دیا ناشر نے مارے خوف کے کتاب چھاپی تو سہی لیکن اس پر جو پیش لفظ چھاپا اس میں یہ لکھوا دیا کہ کوپرینکس نے جو کچھ لکھا ہے اس کی حیثیت خیالی پلائو سے زیادہ نہیں۔ گلیلیو نے کوپرینکس کے نظریے کو اپنے تجربات سے مبنی بر صداقت پایا اور جب اس نے اس کا اعلان کیا تو اسے قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔۔ یہ ساری باتیں سائنس کی تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں ان کو دہرانے کی ضرورت اس کے لئے پیش آئی کہ جب تک کوئی حکومت اور معاشرہ سائنسی اور سماجی علوم ہی تحقیق و تجربے کو اہمیت نہیں دے گا،نئے خیال کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو گا‘ کسی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے سیاست اور اس کے گھٹیا پن نے پورے معاشرے کو ذہنی اور جذباتی طور پر پراگندہ کر رکھا ہے ۔ افسوس کہ ہم اس منزل سے بہت دور ہیں اور علم کی دنیا میں بھی معاشی و اقتصادی دنیا کی طرح بے ایمانی‘ سرقہ نویسی اور جعل سازی کے واقعات بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ ایسے حالات سامنے ہوں تو کیسے یقین کیا جائے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمان درست فرما رہے ہیں۔ قوم کو اور اہل علم کو خوش فہمیوں کی میٹھی گولیاں کھلا کر کیا وہ اس نیند کو اور گہرا اور طویل کرنا چاہتے ہیں جو صدیوں سے طاری ہے اور جس سے بیدار ہونے کے لئے ہم تیار نہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں ہمارے ملک کی کسی یونیورسٹی کا نام نہیں آتا۔ ہمارے یہاں پی ایچ ڈی کی جتنی تحقیق ہوتی ہے۔ خواہ وہ طبعی علم ہی ہو یا سماجی علم میں‘ ان سے معاشرے اورصنعتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ معاشرے کی ضروریات اور تقاضے کچھ ہیں اور تحقیق کے موضوعات کچھ اور۔ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے نے اس صورت حال کو بہتر بنانے میں کوئی کامیابی حاصل کی؟ آخری بات یہ کہ جب تک ہمارے محققین ‘ ہمارے اساتذہ اور اہل علم سچائی اور خلوص سے علم و تحقیق کے لئے اپنی توانائیاں کھپانے پر تیار نہیں ہوتے۔ کوئی امید نہیں کہ کبھی ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں گے اور اقوام عالم میں عزت و وقار کے ساتھ جینے کے قابل ہو سکیں گے۔