گلگت بلتستان میں گلیشیئر پگھلنے سے سینکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ سیلابی ریلے میں دو افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل سے دوچار گلگت کا علاقہ پہاڑوں میں محصور ہے۔ دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے اس علاقے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ علاقہ دور دراز ہونے کے باعث پسماندہ بھی ہے۔ اگرخدانخواستہ پہاڑ سرکنے یا گلیشیئر پگھلنے سے کوئی آفت عوام کو گھیر لیتی ہے تو مقامی حکومت کے پاس جدید مشینری ہے کہ فی الفور راستوں کو صاف اور عوام کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کرے نہ ہی اس کے پاس اس قدر وسائل ہیں۔ اسے ہر ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت سے سامان رسد پہنچتے پہنچتے بہت سارا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ بارشوں سے پہاڑوں کے سرکنے کے خدشات بھی ہے۔ وفاقی حکومت کو اس موسم سے قبل ہی ان علاقوں کی سڑکوں اور آبادی کے نزدیک پہاڑی سلسلے کی دیکھ بھال کرنی چاہئے۔ اگر کسی جگہ کوئی شگاف ہو تو اسے قبل از وقت پر کر کے حفاظتی اقدامات کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر حکومت سستی سے کام لیتی رہی تو اس علاقے میں زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی ان علاقوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں لیکن حکومت نے اس جانب کبھی توجہ ہی نہیں دی۔اس بار بارشیں بھی قبل از وقت شروع ہو گئی ہیں اور حکومت نے خاطر خواہ انتظامات بھی نہیں کیے۔ نگران حکومت کے پاس منصوبہ بندی کا وقت نہیں ہوتا جبکہ سابق حکومت نے سارا بوجھ نگرانوں کے سر ڈال دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تا کہ حکومت ایسے پسماندہ علاقوں میں فی الفور ترقیاتی کاموں پر توجہ دے اور برسات سے قبل پرخطر راستوں کو محفوظ بنایا جائے اور خصوصی طور پر شہریوں کو سفر میں احتیاط برتنے کا کہا جائے۔ مقامی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے ان کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ گلگت بلتستان کی حکومت گلیشیئرز کو پگھلنے سے بچانے کے لئے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے ۔