احتجاجی مظاہروں کے باوجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دیرینہ عوامی مطالبے کے پیش نظر گلگت بلتستان کے موجودہ قانونی ، آئینی اور انتظامی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا اعلان کردیا ۔نئے نظام کو گلگت بلتستان ریفارمز آرڈر 2018 ء کا نام دیاگیا ۔نیا نظام تین برسوں کے طویل غورو فکر اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا ثمر ہے۔سرتاج عزیز جیسے زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان اور بیوروکریٹ نے محنت شاقہ کے بعد یہ خاکہ تیار کیا۔ نئے آڈر کے تحت گلگت بلتستان کی اسمبلی اور حکومت کو قانون سازی، مالیاتی اور ترقیاتی امور میں وہ تما م حقوق حاصل ہوگئے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد دیگر اکائیوں کو حاصل ہیں۔گلگت بلتستان آرڈر کے جو چیدہ چیدہ نکات سامنے آئے وہ باور کراتے ہیں کہ خطے کو بااختیار بنانے کا عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ گلگت بلتستان اصلاحات کا جو مسودہ دیکھنے کا موقع ملا اس کے خدوخال کچھ یوں ہیں: قانون ساز اسمبلی کا نام تبدیل کرکے گلگت بلتستان اسمبلی رکھ دیاگیا ہے۔گلگت بلتستان کونسل سے قانون سازی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات لے کر اسمبلی اور حکومت کوتفویض کردیئے گئے ۔کونسل کو اس مرحلے پر ختم نہیں کیا گیا لیکن اس کی حیثیت اب ایک مشاورتی ادارے سے زیادہ نہیں۔اس طرح وفاقی نوکر شاہی یا وزراء گلگت بلتستان کے نام پر جو من مانیاں اور بدعنونیاں کرتے تھے ان کا چور دروازہ بند ہوگیا ۔ گلگت بلتستان میں پیدا ہونے یا مقامی ڈومیسائل رکھنے والے ہر شخص کو پاکستان کا شہری قراردیاگیا ۔اسے وہ تمام بنیادی حقوق جو 1973ئکے آئین کے تحت ملک کے باقی شہریوںکو حاصل ہیں عطا کردیئے گئے۔ اس طرح یہ شکوہ بھی ختم ہوگیا کہ گلگت بلتستان والوں کو پاکستان کے دیگر شہریوں کے برابر نہیں سمجھاجاتا۔ یہ اصول بھی طے کردیاگیا کہ گلگت بلتستان کے شہری کے علاوہ گورنر کے منصب پر کوئی دوسراشخص فائز نہ ہوسکے گا۔انصاف کے حصول کے لیے ججوں کی تعداد سات تک بڑھا دی گئی۔ چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کا درجہ دینے کے بعد شہریوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے انصاف کی غرض سے رجوع کرنے کا حق بھی دے دیاگیا۔گلگت بلتستان کی مقامی سول سروس قائم کرنے کا اعلان کرنے کے علاوہ وفاقی سول سروس میں بھی گلگت بلتستان کاکوٹہ مقرر کردیاگیا۔علاوہ ازیں گلگت بلتستان کے آفیسران کو دوسرے صوبوں میں جا کر اپنی خدمات انجام دینے کا موقع بھی فراہم کرنے کا وعدہ کیاگیا۔وفاق سے افسران کی گلگت بلتستان تعیناتی کے سلسلے کو محدود کرکے مقامی افسران کو ترقی دینے کا آغاز بھی کردیاگیا۔ قومی دھارے سے مربوط کرنے اور ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں سے اس خطے کو مستفید کرنے کے لیے گلگت بلتستان کو قومی مالیاتی کمیشن اور ارسا سمیت دیگر پالیسی ساز اداروںمیں بطور مبصر نمائندگی دی گئی ۔مالیاتی طورپر گلگت بلتستان کو مستحکم بنانے کے لیے اسے پانچ برس تک ٹیکس چھوٹ دینے کے علاوہ سیاحت ، پن بجلی، جنگلات اور ہائیڈوپاور منصوبوں پر قانون سازی کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ ان سے حاصل شدہ آمدنی پر اب مکمل حق گلگت بلتستان کی حکومت کا ہوگا۔ اس طرح یہ خطہ مالیاتی وسائل پیدا کرنے کے لیے مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے لگانے اور چلانے کے قابل ہوجائے گا۔ ماضی کے برعکس اب چیف سیکرٹری گلگت بلتستان چیف اکاونٹنگ آفیسر ہوں گے۔ کنسولیڈیٹیڈ فنڈ بھی ایک کردیا گیا۔ اس طرح گلگت بلتستان کی حکومت کو مالیاتی امور میں زیادہ آسانی اور مقامی سطح پر فیصلے کا اختیار حاصل ہوگیا۔نئے آرڈر کے بعد وفاق کو اگر زمین کی ضرورت ہو تو اسے گلگت بلتستان حکومت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ گلگت بلتستان کی زمینوں پر مرکزی حکومت کا حق ختم ہوچکا ہے۔ نئے نظام میں سرمایہ کاری کیلئے قانون سازی کے تمام اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کے حوالے کریئے گئے ۔پاک چین اقتصادی راہ داری کے پس منظر میں یہ ایک اہم فیصلہ ہے جو مقامی حکومت اور اداروں کو طاقت ور بنائے گا۔ حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان کے درمیان اختیارات کی باقاعدہ تقسیم ہوئی ہے۔ 1973ئآئین کے تحت جو اختیارات وزیراعظم پاکستان کو باقی صوبوں کے حوالے سے حاصل ہیں‘ وہی گلگت بلتستان کے بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ ملنے کے باوجود گلگت بلتستان میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟سیاسی وجوہات اور نون لیگ کی مخالفت کے علاوہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کاطویل عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ ۔دقت یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر سے اس خطے کی تاریخی نسبت اور اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ یہ مطالبہ پورے کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔کل ہی حکومت پاکستان نے بھارت اعتراض کے جواب میں گلگت بلتستان کو ایک بار پھر ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قراردے کر اس سوال کا جواب دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو وہ سب کچھ دے دیا جو کسی صوبے کو دیاجاسکتاہے لیکن باقاعدہ صوبے کی آئینی حیثیت نہیں دی۔اصلاحات کا آرڈر2018ئہو یا پھر ماضی کے گورننس آرڈرز‘ وہ گلگت بلتستان کو آئینی تحفظ نہیں دیتے۔نہ ہی انہیں پاکستان کی پارلیمنٹ نے منظور کیا ۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس آڈر میں ترمیم یا اضافے کا اختیار گلگت بلتستان اسمبلی کوحاصل نہیں۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے صوبہ بنانے کا مطالبہ کیاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پندرہ لاکھ آبادی پر صوبہ نہیں بنایاجاسکتا۔البتہ ہم آپ کو خیبر پختون خوا میں ضم کردیتے ہیں۔ اس طرح آپ کی پارلیمنٹ میں دوتین اور کے پی کے کی اسمبلی میں پانچ چھ نشستیں ہوجائیں گی۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا یہ جواب سن کر گلگت بلتستان کے نمائندے لاجواب ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ بہت سارے اختیارات وزیراعظم پاکستان کی ذات میں مرتکز ہوگئے جو کہ جمہوری نظام کی روح کے مغائر ہے۔ تاہم اس بات کا ادراک کیا جانا چاہیے کہ ستر برس کی محرومیاں راتوں رات دور نہیں ہوسکتیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک کی بدولت گلگت بلتستان تیز رفتاری سے ترقی کرے گا۔جو کچھ گلگت بلتستان کو ملا ہے کل تک کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔ اپوزیشن جماعتیں اور شہری جن قانونی اورآئینی نکات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں وہ بہت اہم ہیں ۔ پیش نظر رہے کہ سیاسی، قانونی اور سماجی ایمپاورمنٹ کوئی مستقل شہ نہیں۔ یہ ارتقا کرتی ہے اور بتدریج آگے بڑھتی ہے۔ نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظر بھٹو نے گلگت بلتستان بلتستان کو بااختیار بنانے کا ایک عمل شروع کیا تھا۔ پرویزمشرف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں نے نئے سنگ میل عبور کیے۔اب موجودہ حکومت نے ایک بہت بڑی جست لگائی ہے۔ نون لیگ کی حکومت نے وقت رخصت ہی سہی فاٹا اور گلگت بلتستان کے عوام کے مطالبات بڑی حد پورے کردیئے۔ اگلے چند دن میں وزیراعظم شاہد قاخان عباسی نے اگر اس طرح کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور نوکرشاہی کو حاوی نہ ہونے دیا تو آزادکشمیر کے معاملات بھی یکسو ہوجائیں۔ ایک نئی تاریخ رقم ہو گی کہ ایک کمزور جمہوری حکومت نے وہ کارنامے سرانجام دیئے جوطاقت ور ترین حکمرانوں کے نصیب میں بھی نہ آسکے۔