گلگت بلتستان کے شفاف پانیوں میں پی ڈی ایم کی تحریک‘ مولانا کی بھاگ دوڑ اور ن لیگ کا بیانیہ بہہ گیا۔ہارنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، شکست قبول کرنا مشکل ہے ،آسان ہوتا تو ٹرمپ قبول کر لیتے ۔ ہار قبول کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ، جو نظام جمہوری نہیں ہوتا ، جہاں سیاسی جماعتیں جمہوری انداز سے نہیں سوچتیں وہاں کسی حق کا استعمال بھی متنازع ہو جاتا ہے ۔انتخابات میں ہر بار دھاندلی کا شور اس کی مثال ہے۔ وفاقی انتظام میں طویل عرصہ رہنے والے علاقوں کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا منشور ہے ہی نہیں جو مقامی لوگوں کو متوجہ کرسکے۔ کیا کسی نے آج تک سنا کہ آزاد کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں انجام دینے والی پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ ن‘ جماعت اسلامی اور اب تحریک انصاف نے کوئی ایسا پروگرام لوگوں کے سامنے رکھا ہو جو ان کے مسائل کا حل پیش کرتا ہو‘ صرف الحاق اور آزادی کے نعروں سے کام چلایا جاتا ہے۔ ان دونوں نعروں کی سمت بتاتی ہے کہ یہ دونوں معاملات فوج کے بنا انجام نہیں دیئے جاسکتے۔ ایسا ہے تو پھر آزادکشمیر کے باشندے سیاسی جماعتوں سے زیادہ فوج سے لگائو کیوں نہ رکھیں۔ سامنے کی بات ہے سات قبائلی ایجنسیوں کو دو سال قبل کے پی کے میں شامل کرلیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیم کے پی کے میں موجود ہے۔ تینوں بڑی جماعتوں کے علاوہ اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ جماعت اسلامی اور کچھ مقامی سطح کے سیاسی دھڑے خیبر پختونخوا میں عشروں سے کام کر رہے ہیں۔ ہشت نگری کے کسانوں کی تحریک ہے‘ تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کی تنظیمیں ہیں‘ اساتذہ‘ طبی عملے اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں کی تنظیمیں موجود ہے۔ یہ ذیلی گروپ سیاسی تنظیموں سے جڑے ہوتے ہیں‘ کسی علاقے میں سیاسی جماعت متحرک ہوتی ہے تو ساتھ اس کی حامی دیگر تنظیمیں اور گروپ بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ سابق قبائلی علاقوں میں چھ سات سال قبل تحریک انصاف پہلی بار داخل ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی نے بھی یہاں افغان جہاد کے زمانے سے جڑیں بنا رکھی ہیں لیکن فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہونے کے بعد ہمیں کوئی قومی جماعت ان علاقوں میں متحرک ہوتی دکھائی نہ دی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے سیاسی مطالبات کو پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر اٹھانا شروع کردیا۔ اب اگر کوئی سیاسی پارٹی ان علاقوں میں کام شروع کرنا چاہے گی تو اسے پی ٹی ایم کے بنائے ہوئے ماحول کو پیش نظر رکھ کر حکمت عملی تیار کرنا پڑے گی۔ گلگت بلتستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اصلاحات متعارف کرائیں‘ 2008ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو اصلاحات کا ایک نیا پیکیج متعارف کرایا گیا۔ شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا معتبر نام دیا گیا۔ اس علاقے کے لیے گورنر اور وزیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ کوئی جتنا بھی کریڈٹ لے سچ یہی ہے کہ سی پیک فوج کی مدد سے تیار کیا گیا منصوبہ ہے اور وہی اس کی نگران ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو گمراہ کیا جاسکتا ہے مگر جہاں سے یہ راہداری شروع ہورہی وہ لوگ حقیقت سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کی تقاریر کا جوہر جی بی میں ناکارہ ثابت ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ووٹر اس لیے ابھی تک موجود ہیں کہ پی پی نے اس علاقے کی شناخت اور آئینی حیثیت کے لیے کام کیا ہے‘ پیپلزپارٹی مرکز میں حکمران ہوتی تو آسانی سے دو تہائی اکثریت لے سکتی تھی۔ دوسری طرف مسلم لیگ ہے‘ پانچ سال تک جی بی میں ن لیگ کی حکومت رہی‘ کوئی قابل قدر کام نہ ہوسکا۔ 90 فیصد سے زائد شرح خواندگی والے اس علاقے میں لوگ کارکردگی کا جائزہ لینے میں سہل پسندی نہیں دکھاتے۔ ن لیگی حکومت اگر گلگت بلتستان کے عوام سے رابطہ رکھتی تو اسے دو نشستوں کی شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔ ہمارے مبصرین عام طور پر سامنے کی چیزوں کو دیکھ کر تجزیہ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آخری دس دن میں شروع ہوئی جبکہ بلاول بھٹو پانچ ہفتے سے وہاں بیٹھے تھے۔ آخری دنوں میں زلفی بخاری‘ امین گنڈا پور اور مراد سعید نے ماحول کو گرمایا لیکن اس کامیاب انتخابی مہم کا اصل سہرا پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کے سر بندھتا ہے۔ سیف اللہ نیازی نے خاموشی سے مقامی دھڑے بندیوں‘ برادریوں اور سماجی سطح پر متحرک افراد سے رابطے کئے۔ انہوں نے مقامی رہنمائوں اور بزرگوں تک تحریک انصاف کا وہ پروگرام پہنچایا جو اقتدار ملنے کی صورت میں گلگت بلتستان میں روبہ عمل ہو سکتا ہے۔ ہسپتال‘ روزگار اور ندی نالوں پر پل بنانے کی بات کی۔ گلگت بلتستان کے لوگ صوبائی درجہ دیئے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے یوم آزادی کے موقع پر علاقے کو عبوری صوبائی درجہ دینے کی بات کر کے مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم اعلان کیا۔ ناتجربہ کار اور نئے لوگ قرار دے کر پی ٹی آئی پر جو طعنہ زنی کی جاتی تھی وہ اس کے مخالفین کی طرف پلٹ گئی ہے۔ آزادکشمیر کے انتخابات قریب ہیں۔ فوج اور مرکزی حکومت والا فیکٹر یہاں بھی ہوگا لیکن بہت ضروری یہ بات ہے کہ قومی جماعتوں کو قومی بیانیہ لے کر فاٹا اضلاع میں جانا چاہیے۔ علاقائی مسائل کو قومی جماعتیں جب نظر انداز کرتی ہیں تو مقامی گروہ ان کی بنیاد پر مرکز کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔قومی جماعتیں اپنی اس مجرمانہ روش کو تبدیل کرنے پر آمادہ دکھائی نہیںدیتیں،فاٹا ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے ان کے رویئے جمہوری انداز میں تبدیل نہ ہوئے تو کوئی دوسری طاقت یہ خلا پر کرنے کو تیار رہے گی۔ ٭٭٭٭٭