گلگت بلتستان اسمبلی نے علاقے کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید اور قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈووکیٹ کی پیش کردہ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت، وزیراعظم اور ریاستی ادارے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبے کا درجہ دے کر اسے قومی اسمبلی اور دیگر وفاقی اداروں میں مناسب نمائندگی دیں۔قرارداد کہتی ہے کہ اس سلسلے میں آئین میں ترامیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے، آئینی ترامیم میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے مسئلہ کشمیر متاثر نہ ہو۔ گلگت بلتستان کے عوام کشمیری بھائیوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ حکمران نے ان علاقوں پر بزور قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے قابض ڈوگرہ افواج سے لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔کشمیر کے تنازع سے اسی لئے اسے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد سے یہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا 2008 . میں قائم ہونے والی پی پی پی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے تاہم یہاں کے لوگ مکمل صوبائی حیثیت چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں تین ملکوں بھارت ،چین اور افغانستان سے ملتی ہیں ۔ 15 نومبر دو ہزار بیس کو قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہگلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے لیے ملکی آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جائے گی۔ جس کے نتیجے میں سینیٹ، قومی اسمبلی کے علاوہ پاکستان کے آئینی اداروں میں بھی نمائندگی ملے گی۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا تعلق محض وزیر اعظم عمران خان کے اعلان سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے گلگت بلتستان کے عوام کی ایک طویل جدوجہد اور سابق وفاقی حکومتوں کے متعدد اقدامات بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1999 میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ’شمالی علاقہ جات کے لوگ ہر لحاظ سے پاکستانی شہری ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔‘ سپریم کورٹ نے وفاق کو حکم دیا کہ اس حوالے سے ضروری انتظامی اور آئینی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔اس دوران ملک میں جنرل پرویز مشرف بر سر اقتدار آ گئے اور 1999 سے 2008 تک اس فیصلے پر عمل در آمد نہ کیا جا سکا۔ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ’گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر‘ کے نام سے ایک آئینی پیکیج متعارف کرایا جس کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام ملا بلکہ 33 ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی، وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور وفاق کی جانب سے گورنر کا تقرر بھی عمل میں لایا گیا۔اس کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام آئینی صوبے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے مطابق حقوق کا مطالبہ کرتے رہے۔ 2015 میں قانون ساز اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کی جس میں گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاںنواز شریف نے اپنے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے متعدد سفارشات مرتب کیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے دوران اسے عبوری صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کیا تو اسے سابق وفاقی حکومتوں کے اقدامات کا تسلسل ہی سمجھا گیا۔اس موقع پر کئی طرح کے خدشات سر اٹھا رہے تھے ۔اعلیٰ سطح پر اس امر کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس سے تنازع کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو نقصان تو نہیں پہنچے گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے پر پاکستان کے دیرینہ موقف کو بچانے کی کوشش سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات میں موجود ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ایک پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتا ہے۔ اس میں ترمیم نہ کی جائے بلکہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 59 میں ترمیم کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی دی جائے۔گلگت بلتستان کے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ’ہم تو آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے کشمیر کاز کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو آئینی ترمیم میں لکھا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کو اس وقت تک آئینی صوبہ بنایا جا رہا ہے جب تک کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، یہ آئینی صوبہ ہوگا اور کشمیر کا جو بھی فیصلہ ہوگا پاکستان اس کو تسلیم کرنے کا پابندہ ہوگا۔ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں باضابطہ نمائندگی نہیں ملتی تو اور صرف انتظامی صوبہ ہی بنانا ہے تو اس حیثیت میں تو 2009 سے گلگت بلتستان کام کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کے نئے ریاستی مفادات کا حصہ ہے، سی پیک ،پانی و بجلی کے منصوبے ،پاک چین دفاعی تعلقات اور نئے معاشی مواقع کے اعتبار سے اس علاقے کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لیئے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے۔مقامی آبادی پاکستان سے والہانہ محبت کرتی ہے لیکن اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنے سے پیشتر اس کے اثرات و نتائج کا مکمل جائزہ لیا جانا چاہئے۔