گلگت بلتستان کے قومی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جی بی کو عبوری صوبائی حیثیت دینے کا علان کیا ہے۔ بلاشبہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا جو اب قدم بقدم منزلیں طے کرتا پاکستان کے پانچویں صوبے کے درجے تک آ پہنچا ہے۔ جی بی کا علاقہ سی پیک اور پاک چین تزویراتی تعلقات کے باعث اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ اس اہم علاقے میں ترقیاتی منصوبوں‘ بنیادی سہولیات کی فراہمی اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے صوبے کا درجہ دیا جائے۔ ستمبر 2009ء کوچھ اضلاع پر مشتمل پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو’گلگت بلتستان‘ کے نام سے نئی انتظامی حیثیت دینے کے بارے میں جاری کردہ صدارتی آرڈیننس پر متعلقہ علاقوں کے زیادہ تر لوگ خوش ہوئے ۔اگر تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو گلگت اور بلتستان کے لوگوں کی ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ کی وہ محرومیاں ہیں جو ان کی کئی نسلیں بھگتتی رہی ہیں۔ سولہ مارچ اٹھارہ سو چھیالیس کو جب سکھوں کو شکست دے کر انگریزوں نے امرتسر میں گلاب سنگھ سے ایک معاہدے کے تحت کشمیر کی حکمرانی پچہتر لاکھ روپوں کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کی تو اس وقت گلگت اور بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں تھا۔ڈوگرہ راج دریائے سندھ تک تو تھا لیکن بعد میں جب گلاب سنگھ کا بیٹا رنبیر سنگھ بادشاہ بنا تو اسکی افواج نے گلگت اور بلتستان پر قبضہ کرکے کشمیر کا حصہ بنا لیا۔ بعد میں اس کی گرفت کمزور پڑی اور حالات بدلتے رہے ۔ سن 1948 ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ گیا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حْسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ لیکن حْسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ پاکستان نے کشمیر کو جب ’آزاد علاقے کادرجہ‘ دیا تو کئی دہائیوں تک شمالی علاقہ جات کو کوئی مقام نہ ملا۔ اس پورے عرصہ میں یہ علاقہ حقِ رائے دہی کے چکر میں برائے نام تو کشمیر کا حصہ رہا لیکن وہاں کے شہریوں کو بہت سے معاملات میں شہریوں جیسے حقوق یا درجہ نہیں مل سکا۔ اس کے باوجود اس علاقے کے لوگوں نے کارگل کی جنگ میں پاکستان سے محبت کا لازوال ثبوت دیا اور لالک جان نے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا۔ گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے نیا نظام تو نافذ کیا گیا جیسا کہ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔پہلے یہاں پر ’سٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافذ تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ لیکن ستر کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے ختم کر دیا ۔اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر ضم کر لے۔جبکہ کچھ کشمیری اس مطالبے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے پیچھے سوچ یہی ہے کہ اس معاملے میں اس طرح سے آگے بڑھا جائے کہ عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلہ کو سیاسی اعتبار سے نقصان نہ پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا صوبہ کس حد تک باقی چار صوبوں کی طرح ہو گا اور کس حد تک اس کی حیثیت کو مختلف رکھا جائے گا؟ یہ وہ تفصیلات ہیں جو ابھی تک سامنے نہیں آسکیں۔ لیکن اس علاقے کی موجود حیثیت میں تبدیلی سے پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا رشتہ بالکل بدل جائے گا۔اعلیٰ تربیت یافتہ سرکاری افسران ،قانون نافذ کرنے والے ڈھانچے میں اصلاحات، مقامی افراد کے لئے نوکریاں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو ں گے۔ چند ہفتے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو نئے صوبے کی تزویراتی ضرورت سے آگاہ کرنے کے لیئے مدعو کیا ،ان جماعتوں نے اس ملاقات کو اگرچہ سیاسی ہنگامہ آرائی کی نذر کر دیا تاہم اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کے معاملے پر سنجیدہ ہے اور محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔یہ خدشات موجود ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آئین میں ترمیم کرنے کے لیے حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نا ممکن ہو گی۔ تاہم اب حزب اختلاف پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ان دنوں گلگت بلتستان میں انتخابی مہم عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی برتری کے لیے ایک دوسرے پر کئی طرح کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ مقامی آبادی کو گمراہ کرنے اور انہیں جمہوریت کے نام پر انتشاری سبق پڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ گلگت بلتستان کے مقامی رہنمائوں کا کردار نئے انداز سے سامنے آ رہا ہے جو بھی کامیاب ہو گا اس کے لیے کئی چیلنجز ہوں گے۔ لہٰذا مقامی سیاستدانوں کو قومی مفادات سے آگاہی اور اپنی سیاسی و انتظامی صلاحیت میں اضافے پر توجہ دینی ہوگی۔