رمضان میں وہی لوگ خدا کا خوف کرتے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے۔ جو بے خوف ہیں ان کے لیے کوئی بھی مہینہ ہو‘ ایک برابر ہے۔ یہ خبر دیکھیے کہ پاکپتن میں بھٹہ مالک ظریف خاں نے ایک محنت کش عورت کو محض اس لیے قتل کر دیا کہ وہ پندرہ روز کی مزدوری مانگ رہی تھی۔ مقتولہ چھیماں بی بی نے اس توقع پر مزدوری مانگی ہو گی کہ کچھ پیسے ملیں گے تو آج وہ اور اس کے بچے بھی افطاری کر لیں گے لیکن ظریف خاں اور اس کے ملازموں نے اسے مکوں گھونسوں سے اتنا مارا کہ وہ مر گئی اور افطاری کی فکر سے ہمیشہ کے لیے بے نیاز ہو گئی۔ رہے بچے تو اس کے لیے آپشن ہی کیا ہے۔ مر جائیں یا رل جائیں۔ یہ واقعہ رمضان کی پانچویں کو ہوا‘ رمضان کی دوسری تاریخ کو گوجرانوالہ میں ایک ایم این اے کے کزن اسسٹنٹ کمشنر کے بھائی نے اپنے ملازم کو الٹا لٹکا کر دو گھنٹے تک بے دردی کے ساتھ مارا‘ اس کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ اپنی مزدوری مانگ رہا تھا۔ خبر میں ہے کہ ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے پولیس نے احترام رمضان میں اسے نہ پکڑا ہو۔ ٭٭٭٭٭ رمضان کی دوسری تاریخ کو بہاولنگر میں چھ سال کی بچی کو نامعلوم افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے تشدد کا نشانہ بنا کر گلا کاٹ دیا۔ اسی روز باغبانپورہ میں ایک عورت نے اپنی سوتیلی بچی سحرش کو تیز دھار آلے سے زخمی کیا۔ پھر زخموں میں نمک اور مرچ چھڑکی۔ رمضان کے دوران بچوں کے قتل کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ یعنی یہ ایسا رویہ ہے جسے رمضان بھی نہیں روک سکتا۔ پتہ نہیں رمضان ہمارے ہاں ہی اتنا کمزور کیوں آتا ہے کیونکہ نیٹ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ باقی مسلمان ملکوں میں اس مہینے کے اندر جرائم میں بہت زیادہ کمی ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے‘ پاکستانیوں نے خود کو ’’رمضان‘‘ سے خود ہی استثنیٰ دے رکھا ہے۔ پھر سوال ہے کہ روزہ رکھنے کاتکلف کیوں‘ اس سے بھی کیوں نجات حاصل نہیں کر لی جاتی۔ ٭٭٭٭٭ پچھلے ہفتے ٹیکساس (امریکہ) میں فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک ’’شوقین‘‘ طالب علم نے اندھادھند فائرنگ کر کے 9طلبہ اور ایک استاد کو قتل کر دیا۔ قتل ہونے والوں میں ایک پاکستانی بچی سبیکا بھی شامل تھی جو سکالر شپ پر امریکہ گئی تھی۔ سکالر شپ ملنے پر والدین کو کتنی خوشی حاصل ہوئی ہو گی۔ اگر وہ جانتے کہ ان کی بچی موت کو گلے لگانے امریکہ جا رہی ہے تو وہ اسے کبھی نہ جانے دیتے لیکن پردہ غیب میں کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔ جاننے کی گنجائش ہوتی تو زندگی سے کتنے ہی غم کم ہو جاتے لیکن دنیا تو دارالحزن ہے اور اسے ایسا ہی رہنا ہے۔ خبر‘ ٹیکساس کے گورنر ڈین سڑک نے اس واقعے کی ذمہ داری پرتشدد ویڈیو گیمز پر ڈالی ہے اور اسے گن کلچر کا نتیجہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ گورنر نے سچ چھپا کر گن کلچر کی حمایت کی۔ پرتشدد گیمز بلکہ اکثر طرح کے ویڈیو گیمز اسی وسیع تر کاروباری کلچر کا حصہ ہے جس کا ایک حصہ یہ گن کلچر ہے۔ یہ پرتشدد ویڈیو گیمز جب تشدد کی جبلت کو ابھارتی ہیں تو کتھارسز کے لیے لوگ اسلحہ خریدتے ہیں۔ امریکہ اس عالمی کارپوریٹ کاہیڈ کوارٹر اور سب سے بڑا گڑھ ہے جس کا مقصد ہر طریقے سے لوٹ مار کرنا ہے۔ امریکی معاشرے میں لوگوں کے پاس اتنی بندوقیں ہیں کہ ابھی تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں ہے اس کے مقابلے میں جو آنے والے برسوں میں ہونے والا ہے۔ امریکی معاشرے میں شہریوں کے لیے اتنے خطرات بالکل نہیں ہیں کہ ہر شخص اسلحہ رکھنے پر مجبور ہو۔ یہ بندوق بنانے والے ہیں جو استحصالی پبلسٹی مہم کے ذریعے بندوقیں بیچتے رہے ہیں اور پرتشدد ویڈیو گیمز اسی پبلسٹی مہم کا حصہ ہیں۔ بندوق ایک شیطانی ایجاد ہے اور شیطانی ادارے اس کاروبار کو پھیلاتے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں بے مقصد جرائم‘ جیسا کہ ٹیکساس فائرنگ بے تحاشا بڑھ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ نابالغ بچے محض نشانہ لگانے کے شوق میں اپنے ماں باپ تک کو مار رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ گن انڈسٹری کے ساتھ مشترک مفاد رکھتے ہیں۔ ایک دو ماہ پہلے امریکہ میں بہت بڑے پیمانے پر گن کلچر کے خلاف مظاہرے ہوئے لیکن گن مافیا کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ سب احتجاج بے کار رہا۔ ٭٭٭٭٭ چین نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مسجدوں میں قومی پرچم لہرائیں۔ ایسا حکم گرجائوں‘ بدھ مندروں اور دوسرے مذاہب کے لیے نہیں ہے۔ مطلب یہی نکلتا ہے کہ چین کی حکومت مسلمانوں کی وفاداری مشکوک سمجھتی ہے شاید مساجد کے ضمن میں پرچم لگانے سے یہ شک کم ہو جائے۔ چینی حکومت مسلمانوں کو غیر وفادار سمجھتی ہے تو اس کی وجوہات بھی ہوں گی۔ مسلمانوں کو سب سے کم حقوق حاصل ہیں بلکہ سنکیانگ میں تو سرے سے ان کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ چین میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ نیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاک چین دوستی کے احترام میں پاکستانی پریس ایسی خبریں نہیں چھاپتا۔ چین میں مسلمان محض اڑھائی کروڑ ہیں‘ باقی چینی آبادی ایک ارب تیس چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اتنی زیادہ آبادی کو مٹھی بھر مسلمانوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ویسے یہ مٹھی بھر مسلمان ہمیشہ سے مٹھی بھر نہیں تھے۔ آزادی سے پہلے جب چین کی آبادی 25‘30کروڑ تھی‘ وہاں 5کروڑ مسلمان تھے۔ مساوی شرح آبادی ہو تو بھی اس حساب سے اس وقت مسلمانوں کی آبادی 25کروڑ ہونی چاہیے تھی لیکن وہ محض اڑھائی کروڑ رہ گئے۔ یہ تو دیوار چین سے بھی بڑا عجوبہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ بھارت سے خبرہے کہ وہاں سب سے بڑے صوبے اور مسلمانوں کی بھی سب سے زیادہ آبادی والے صوبے یو پی(اتر پردیش) کے کئی شہروں میں عین سحری اور افطاری کے وقت بجلی اور پانی دونوں بند کر دیے جاتے ہیں۔ مسلمان آبادی میں سیوریج کی صورتحال بھی بگاڑ دی گئی ہے۔ بی جے پی کی حکومت سارے ملک ہی میں مسلمانوں کو تنگ کر رہی ہے لیکن یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی صاحب تو ساری بی جے پی پر بازی لے گئے۔ ان کی ’’بیماری‘‘ تو حد سے زیادہ بڑھی ہوئی لگتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس گھٹ گھٹ کر مر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن کل کلاں کیا ہو‘ کون کہہ سکتا ہے۔ یوگی مہاراج اور بی جے پی کی دوسری قیادت مسلمانوں سے دشمنی کر کے بھارت ماتا کو کسی بڑے حادثے کی طرف لے جا رہی ہے۔