مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں کم کرانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں گندم کی امدادی قیمت 1650روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں زراعت پر ہی توجہ نہیں دی جاتی۔ جس کے باعث ہمیں گندم بھی روس سے درآمد کرنا پڑتی ے۔ ہماری بیورو کریسی کے بابوئوں نے پہلے سستے داموں گندم فروخت کی اب قحط پر مہنگے داموں منگوا رہے ہیں۔ انہیں کچھ ہمسایہ ملک بھارت سے اس بارے میں سیکھ لینا چاہیے یہاں پر کسانوں کے اکائونٹس میں پیسے رکھے جاتے ہیں۔ انہیںمنڈیوں تک آسان رسائی فراہم کی جاتی ہے۔ کھادوں اور بیجوں پر نہ صرف ریلیف فراہم کیا جاتا ے بلکہ زرعی مشینری پر بھی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔ امسال گندم کے قحط سے حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہیں انہیں مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے ابھی سے کسان تنظیموں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ کسانوں کو گندم کے بیج اور کھادوں پر سبسڈی فراہم کی جائے۔نئے بیج خرید کر کسانوں کو دیے جائیں جس کی پیداوار پہلے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ گو اس برس چاول کے نئے بیج پر تجریہ کیا گیا ہے جو کافی کامیاب رہا ہے۔ جس کے باعث کسانوں نے ایک سال میںکئی فصلیں بھی اٹھائی ہیں۔ گندم کی نئی قیمت حوصلہ افزا ہے کسانوں کو اب دل کھول کر گندم اگانی چاہیے تاکہ ہم ضرورت کے مطابق گندم خود ہی پیدا کر کے اپنے زرمبادلہ کو مستحکم کریں۔