رانا شفیق انتقال کر گئے ۔گرین سرکل کے نام سے ایک تنظیم چلاتے تھے۔دیپالپور میں اپنا رقبہ تھا۔آلو کے جدید کاشت اور بائیو گیس پلانٹ کے حوالے سے ان کی کوششوں سے ہزاروں کسان آج فائدہ اٹھا رہے ہیں۔کئی برسوں سے رابطہ نہ ہو سکا۔رانا شفیق کی موت بلا شبہ ہماری زمین کا نقصان ہے۔انہوں نے کئی پمفلٹس تیار کر کے کسانوں میں تقسیم کئے۔خود آسٹریلیا‘ امریکہ اور یورپ میں جا کر زرعی ٹیکنالوجی کا جائزہ لیتے اور وطن واپس آ کر اپنے دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا ان کا مشغلہ تھا۔بلند آہنگ قہقہہ لطیفے اور قصے ان کے مجلسی ہتھیار تھے جن سے وہ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ایسے لوگ گندم کے بھرے ہوئے سٹے جیسے ہوتے ہیں چاہے پس جائیں انسان کے کام آ جاتے ہیں۔ پال ہالی ووڈ ایک معروف اداکار ہیں۔انہوں نے ایک سٹرا بری 350پائونڈ میں خریدی۔ وہ فارم ہاوس کے ایک کونے میں بنی دکان میں پہنچے اور جاپانی مالک سے سٹرا بری اتنی مہنگی فروخت کرنے کا سبب پوچھا۔میکی اوکاڈا نے روایتی انداز میں جھک کر آداب پیش کیا۔ میکی 45برس سے سٹرا بری کاشت کر رہے ہیں۔ پال ہالی ووڈ نے مسٹر میکی سے پوچھا کہ آپ کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ اتنی مہنگی سٹرابری کیوں فروخت کرتے ہیں۔ مسٹر میکی نے جواب دیا میری سٹرابری میں سب سے زیادہ مٹھاس ہوتی ہے‘ اس جیسی خوشبو کسی اور جگہ نہیں ملے گی اور کھانے کے بعد اس کا ذائقہ منہ میں رہ جاتا ہے۔ گاہک آتے ہیں ضرورت کے مطابق سٹرابری لے جاتے ہیں وہ کبھی قیمت زیادہ ہونے کا گلہ نہیں کرتے۔ویڈیو میں دکھایا گیا کہ مسٹر میکی نے خوب گہرے سرخ رنگ کی ایک سٹرابری ڈبے میں سے اٹھائی۔سٹرابری پر کسی طرح کا کٹ ،گرد یا پانی نہیں تھا۔حجم کچھ بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ ان کی سٹرابری جاپان کے پوش علاقوں میں ہاتھوں ہاتھ خریدی جاتی ہے۔ پال ہالی ووڈ نے جونہی اسے منہ میں بھرا اسے محسوس ہوا کہ جیسے گلاب کی پتیوں میں مٹھاس بھری ہو۔ پوری دنیا میں ایسی سٹرابری ملنا محال ہے۔ یہ ایسی ورائٹی ہے جو پچھلے چند برس کے دوران تیار کی گئی۔میکی اوکاڈا کو سٹرابری اگانے اور اس پر تجربات کرنے کا جنون ہے۔ تازہ ورائٹی میں گلاب کی خوشبو‘سیب اور انگور کا ذائقہ گھلا ہوا ہے۔ آسٹن ایک برطانوی گلاب شناس تھا۔ اس نے انگریزی گلاب کی بہت سی اقسام تیار کیں۔ اس کا تیار کردہ پروسیرو گلاب اپنی مسحور کن خوشبو اور خوبصورتی کی بنا پر باغبانوں میں مقبول ہے۔ اس نے ایڈمائرڈ مرنڈا کے نام سے ایک اور ورائٹی تیار کی۔ اس کے پھول بہت خوشبو دار ہوتے ہیں اور پودا زیادہ پھیلتا نہیں۔ 1987ء میں آسٹن نے ریڈمیری روز متعارف کرایا۔ اس کی جھاڑی خوب نشو و نما لیتی ہے۔ شاندار خوشبو والے سرخ پھول عموماً زیادہ دیر تک کھلتے رہتے ہیں۔ آسٹن نے درجنوں اور اقسام کے گلاب بھی متعارف کرائے۔لوگ اس کی تیارکردہ اقسام کو ہاتھوں ہاتھ خریدتے ہیں۔ آپ نے برفی کھائی ہو گی۔ میں نے بھی کئی شہروں کی برفی کھائی ہے۔ ایمن آباد جی ٹی روڈ پر واقع قصبہ ہے۔ وہاں کی برفی کھانے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ اعلیٰ معیار کا کھویا جب ایک خاص نسبت سے چینی میں ملتا ہے تو اس سے کیسا ذائقہ جنم لیتا ہے۔ کوٹ رادھا کشن کے گلاب جامن شرقپور کے مقابلے میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔سیالکوٹ کی ایک سوئٹس شاپ کے پیڑے پورے پاکستان میں منفرد ہیں۔ لاہور ڈویژن میں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر سٹرابری کاشت ہوتی ہے۔ ہر کھیت کی سٹرابری دوسری سے کم تر۔سائز اور رنگت اچھی نہ ذائقے میں مٹھاس۔ کھٹے پن کا غلبہ رہتا ہے۔گلاب کے پھول دیکھ بھال کے لحاظ سے مشکل ہیں لیکن ہم نے ماہرین پیدا ہی نہ کئے، سب سے پہلے میں نے سوا چار سو صفحات کی کتاب تصنیف کی۔ اردو سائنس بورڈ نے پاکستان میں گلاب کے نام سے شائع کی۔کئی سال بیت گئے کسی نے مزید کام نہ کیا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ غالب اور اقبال دونوں اردو کے بڑے شاعر ہیں مگر گلاب کو شعر میں استعمال نہ کیا۔نامور شاعر ظفر اقبال نے تردید کی اور کہا کہ اس زمانے میں گل کا مطلب گلاب ہی ہوتا تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا تقریب میں موجود تھے۔میں نے جھٹ غالب سے پہلے کے شاعر میرتقی میر کا شعر بطور سند پیش کر دیا: نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ہمارے زمین زرخیز ہے۔ اتنی زرخیز کہ بہار کے موسم میں اس بار توت کی کچھ تازہ شاخیں کاٹ کر ایک کمان سی بنائی یہ شاخیں ہفتوں بعد پتوں سے سج گئیں۔ حیرت یہ کہ نہ مٹی میں دب نہ پانی میں کوئی سرا ڈوبا۔ پتہ چلا کہ زمین ہی نہیں ہوا بھی پودوں کی نگہداشت کرتی ہے۔ اب بھلا ایسی مٹی اور ایسی ہوا میں کوئی حکومت فوڈ سکیورٹی کے لئے انتظامات نہ کر سکے تو اسے کیا کہیں گے۔ہر حکومت اپنا انتظامی کلچر سرکاری اداروں میں داخل کرتی ہے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں مزدور اتنا طاقتور ہو گیا کہ کئی جگہ وہ بدمعاشی پر اتر آیا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے مقامی‘زراعت کو نظر انداز کیا۔ اپنے فارم بنائے‘ دنیا کے بہترین گھوڑے‘ گائے‘ بھینسیں اور بکریاں جمع کیں لیکن دوسروں کو ان اعلیٰ نسل جانوروں سے دور رکھا۔ انہوں نے مقامی مٹی اور ہوا کی خصوصیت کی قدر نہ کی۔ تحریک انصاف کی حکومت شجر کاری کر رہی ہے‘ جنگلات لگائے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں نئے پیڑ میں نے خود دیکھے ہیں لیکن کوئی مثالی نظام نہیں بن سکا‘ پنجاب کی تو خیر بات ہی نہ کریں۔شجر کاری اور جنگلات کا کام جن افراد کے ہاتھوں میں ہے وہ کوئی مہارت رکھتے ہیں نہ تجربہ۔بیورو کریسی ان سے کھیل رہی ہے۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کے سامنے پچھلے سال شجر کاری ہوئی۔ ایسے پودے جن کی قامت 20سے 25فٹ ہو جاتی ہے۔ وہ چار چار فٹ کے فاصلے پر لگا دیے گئے۔پھر یہ بھی دھیان نہ رکھا گیا کہ اوپر ہائی پاور بجلی کے تار ہیں۔اگلے تین سال میں یہ پودے ان تاروں تک پہنچ جائیں گے۔اربن شجرکاری دیہی شجر کاری اور روڈ سائیڈ شجر کاری کو ایک دوسرے سے گڈ مڈ کر دیا گیا۔جانے رانا شفیق جیسے لوگ اربوں روپے کے منصوبے کے لئے کیوں نہیں ڈھونڈے جاتے۔