یہ کہانی پاکستان کے ہر اس شخص کی ہے،جو دیکھتے دیکھتے اسقدر امیر ہو گیا کہ اس کی دولت کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔یہ کوئی سیاستدان بھی ہو سکتا ہے اور کاروباری شخصیت بھی۔لیکن کہانی بیان کرنے والے نے اپنے اس ناول میں ان تمام حربوں اور شاطرانہ چالوں کو ایک ترتیب سے بیان کر دیا،جو کسی بھی ایشیائی ملک میں امیر ہونے کے لیئے کارآمد ہو سکتی ہیں۔محسن حامد کے اس ناول کا نام ہے ’’How to Get Filthy Rich in Rising Asia‘‘ ( اُبھرتے ایشیا میں کیسے غلیظ حد تک امیر بن سکتے ہیں)۔ ایک کشمیری نژدا پنجابی گھرانے میں پیدا ہونے والے محسن حامدکی عمر کا بیشتر حصہ امریکہ اور برطانیہ میں گذرا۔ وہ برطانوی پاکستانی ہے جو خود کو’’ مخلوط النسل‘‘ (Mongrel)پکارتا ہے، اپنے دو ناولوں ’’Moth Smoke‘‘ اور ’’The Reluctant Fundamentalist‘‘کی وجہ سے مغربی دنیا میں بہت مقبول ہے اور پاکستان کا مغرب زدہ، انگریزی پڑھ کر خود کو ممتاز بنانے والے طبقے کا بھی وہ بہت محبوب لکھاری ہے۔اپنی تحریروں کے بارے میں اس کا اپنا تبصرہ ہی بہت خوب ہے۔اس نے کہا’’ایک ناول دراصل ایک منقسم انسان کی اپنے آپ سے گفتگو ہوتی ہے‘‘۔خوبصورت نثر لکھتا ہے۔ کہانی کی بُنت، کرداروں کی تخلیق اور سب سے بڑھ کر ’’اختراع‘‘ (Originality)اس کے ناولوں کا خاصہ ہے۔ اس کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی تخلیقی صلاحیت کا انکار ممکن نہیں۔ یہ ناول ’’اُبھرتے ایشیا میں کیسے غلیظ حد تک امیر بن سکتے ہیں‘‘، یوں لگتا ہے میرے ملک کے اس طبقے کی کہانی ہے جس کے قبضے میں اس ملک کی سیاست، حکومت ، عدالت، مذہبی قیادت، تعلیمی نظام، غرض سب کچھ آچکا ہے۔ ناول کی کہانی کی تکنیک ’’ دوسرے شخص کی داستان بیان کرنے‘‘ (Second Person Narration) والی ہے، جس میں مصنف ، ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے کہانی سناتا ہے۔ اس ناول کی کہانی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، مجھے صرف اس ناول کے عنوان میں چُھپی سنجیدگی اور اس کے بارہ ابواب کے عنوانات کے متعلق گفتگو کرنا ہے۔ اس لیئے کہ اس ناول کے یہ بارہ ابواب صرف ابواب نہیں، بلکہ وہ بارہ مدارج اور سیڑھیاں ہیں جن پر چل کر ایک شخص امیر ترین لوگوں کے گروہ میں شامل ہو سکتا ہے۔ امیر بننے کے راستے کی پہلی سیڑھی اس کے پہلے باب کے عنوان میں پنہاں ہے۔ عنوان ہے ’’Move to the City‘‘ (شہر منتقل ہونا)۔ آج کا جدید شہر دراصل وہ مقام ہے جہاں انسان ،انسانوں سے بے بہرہ ہو کر صرف اور صرف اپنے مستقبل کے لیئے سرگرداں ہوتا ہے۔ گاؤں کی زندگی میں ایک معاشرتی ضبط (Social Control) ہوتا ہے۔ آپ وہاں کوئی ایسا ’’دھندہ‘‘ نہیں کر سکتے ، جو گاؤں والوں کی تباہی و بربادی کا باعث ہو۔ لیکن شہر میں منشیات سے لے کر اغوا برائے تاوان اور ملاوٹ کے کاروبار تک ہر چیز باآسانی ممکن ہے۔ شہری زندگی (Urban Life) صرف اور صرف’’ فرد‘‘ کی زندگی ہے، جو کہنیاں مارتا ، لوگوں کو رستے سے ہٹاتا ، گراتا، محروم کرتا، یہاں تک کہ قتل کرتا ہوا ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ہے ’’Get An Education‘‘(تعلیم کا حصول)۔یہاں بھی ایک مخصوص تعلیم کا ذکر ہے جو اس لیئے نہ ہو کہ آپ صاحبِ علم بننا چاہتے ہیں، بلکہ اس لیئے ہو کہ آپ اس کے ذریعے سرمایہ کمانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں قابلِ عزت وہ ’’ڈگری‘‘ہے، جس کی مارکیٹ میں قیمت (Market Value) زیادہ ہے۔ تیسرے باب کا عنوان بہت اہم ہے اور یہ امیر ہونے کی’’ اصل کنجی‘‘ ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’ Don't fall in Love‘‘ یعنی ’’محبت میں گرفتار نہیں ہونا‘‘۔ اگر آپ پر کسی بھی قسم کی محبت کا بھوت سوار ہو گیا تو آپ ’’غلیظ ‘‘ حد تک امیر نہیں بن سکتے۔ یہ محبت وطن سے بھی ہو سکتی ہے اور انسانیت سے بھی۔ اگر آپ کے دل میں ایک لمحے کے لیئے بھی وطن یا انسان سے محبت پیدا ہو گئی تو یوں سمجھ لیں آپ کی منزل کھوٹی ہوگئی۔اگلے باب کا عنوان ہے ’’Avoid Idealist‘‘ یعنی ’’مثالیت پسندوں سے دور رہیں‘‘۔ وہ لوگ جو اپنے خوابوں میں ایک ایسی دنیا آباد رکھتے ہیں، جس میں ظلم و زیادتی نہ ہو، ہر کسی کی عزت و تکریم ہو، سب کو ان کی محنت کا معاوضہ ملے، اخلاقی اصولوں کی برتری ہو۔اس طرح کے خوابوں میں رہنے والوں سے پرہیز بہت ضروری ہے، ورنہ یہ آپ کو راستے سے بھٹکا دیں گے۔ پانچویں باب کا عنوان ہے ’’Learn from Master‘‘ یعنی ’’کسی گرو یا استاد سے سیکھو‘‘۔ جب آپ میں پہلی والی دو خصوصیات پیدا ہو جائیں تو پھر آپ کے سامنے منزل واضح ہو جائے گی۔ ایسے میں آپ کو کسی ایسے تجربہ کار شخص کی رہنمائی میں آجانا چاہیے جو تما م ’’اخلاقی اصولوں‘‘ کو بالائے طاق رکھ کر ناپاک حد تک امیر بن چکا ہو۔ اس کی رہنمائی میں آپکی شخصیت میں جو ’’نکھار‘‘ آئے گا ، اس کا نتیجہ اگلے باب کے عنوان’’Work for Yourself‘‘ (صرف اپنے لیئے کام کرو)میں نظر آتا ہے ۔ یعنی اگر آپ خیرات بھی کروتو اس کے پس پردہ بھی آپ ہی کی ذات کا فائدہ چھپا ہوا ہونا چاہیے۔ بے غرضی یا دوسروں کے لیئے زندگی وقف کرنا، ’’امارت‘‘ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب چونکہ آپ امارت کے سفر کے راہی بن چکے ہیںتو پھر آپ کو امیر بننے کے راستے کے بہت سے ہتھیاروں کو بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ساتویں باب کا عنوان ان ہتھیاروں کے استعمال کے متعلق ہے ’’Be Prepared to Use Violence‘‘ (تشدد کے استعمال کے لیئے خود کو تیار رکھو)۔ اس عنوان میں ایک درس چھپا ہوا ہے کہ آپ کو اپنے مخالفین کو کچلنا ہوگا، انہیں ترقی سے روکنا ہو گا ، نہ صرف مخالفین بلکہ اگر ایک عام آدمی بھی آپ کے راستے کی رکاوٹ بننے لگے تو اس کو روکنے کے لیئے تشدد سے کبھی ہاتھ مت روکنا۔بلکہ تشدد کو اپنی کامیابی کے لیئے اشد ضروری خیال کرنا۔ تشدد کا استعمال کرتے ہوئے آپ گرداب میں آسکتے ہو، آپ پر مقدمات بھی بن سکتے ہیں۔ ان سب سے بچ نکلنے اور جرم کے چھینٹے دامن پر پڑنے سے روکنے کیلئے جو ’’گر‘‘ ہے اس کا راز آٹھویں باب کے عنوان ’’Befriend a Bureaucrat‘‘ (کسی بیوروکریٹ کی رفاقت ، دوستی اور ساتھ بہت ضروری ہے)میں پوشیدہ ہے۔ کسی اہم بیوروکریٹ کو ہر مرحلے میں اپنا بزنس پارٹنر اور رفیق کار بنا کر رکھو۔ اس کی طاقت اور سمجھ بوجھ ہی آپ کی منزلوں کو آسان بنا تی رہے گی۔ امیر بننے اور مزید امیربننے کے لیئے آپ کو معاشرے میں تفریق،ہیجان،خوف،اور قتل و غارت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیئے کہ لوگ آپس میں ہی الجھے رہیں۔یہ اصول نویں باب کے عنوان ’’Patronize the Artist of war‘‘ یعنی جنگ و جدل کے تخلیق کاروں کی سرپرستی کرتے رہو‘‘میں چھپا ہوا ہے ۔یہ ہے وہ ’’گُر‘‘ جوآپ کو عام آدمی کی نفرت سے دور کرتا ہے اور لوگوں کو آپس کی جنگ میںالجھا کر اور اس دوران خوف بیچ کر مزید سرمایہ کمانے کا راستہ دکھاتا ہے۔اس سرمائے کے حصول کی دوڑ میں قرضہ لینا اور پھر اس قرضہ کو ہضم کرنا بھی ضروری ہے، جس کا راستہ دسویں باب کے عنوان ’’Dance with Debt‘‘ یعنی ’قرض کیساتھ رقص‘‘ میں بتایا گیا ہے۔ قرض آپ کے بزنس کو پر لگا دیتا ہے اور پھر قرض کی واپسی پر لیت و لعل یا دیوالیہ بن کر ہضم کرنا آپ کو مزید امیر بناتا ہے۔ کتاب کے آخری دو ابواب کے عنوانات، ’’وقتی زوال‘‘ اور اس ’’گھن چکر‘‘ سے نکلنے کی حکمتِ عملی سے متعلق ہیں،جو ناول کی ضرورت اور کرداروں کے انجام کے لیئے شاید ضروری تھے۔ لیکن پہلے دس ابواب کے عنوانات کے تحت آپ پاکستان کے کسی بھی غلیظ حد تک امیر (Filthy Rich) سیاستدان یا کاروباری شخصیت کی سوانح عمری تحریر کر سکتے ہیں۔ان سرمایہ داروں کا عروج انہی غیر انسانی اور غیر اخلاقی بنیادوں پر بنائے گئے طریقوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ مشہور ناول ’’گاڈفادر‘‘ کا ابتدائی فقرہ اس پوری کہانی کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے’’Behind every great fortune there is a crime‘‘ یعنی ’’ہر خوش بختی کے پیچھے ایک جرم ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے‘‘۔