دامن چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی دیکھ اے دوست مری بے سروسامانی کو شیشہ شوق پہ تو سنگ ملامت نہ گرا عکس گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو بے چارے عوام پر گرانی کا بوجھ لادا جا رہا ہے کہ آخر کمر کب تک بوجھ برداشت کرے گی۔لوگ اب کراہنا شروع ہو گئے ہیں۔ میرے گھر میں بجلی کا بل اٹھارہ ہزار پانچ صد روپے آیا ہے اب گیس کا بل بھی ہزاروں میں آتا ہے۔ آخر ہماری گراں جانی کب تک۔ لیجیے ابھی تو ہم بل پر بلبلا رہے تھے کہ تازہ خبر سامنے پڑی ہے کہ بجلی مزید مہنگی۔ آئی ایم ایف کے چار مطالبات ورنہ پروگرام بند اور مکمل ٹھنڈ۔ حفیظ شیخ کا بھی استعفیٰ کا عندیہ ۔کیسی کیسی آفتیں ہمیں چمٹی ہوئی ہیں۔ کورونا ٹڈی دل اور ایسی کئی مصیبتیں اور آفتیں ایک بڑی آفت کی سپورٹ کے لئے تو اتری ہیں۔ سزا تو یہ ہمارے لئے ہے کہ اعمال تو ہمارے ٹھیک نہیں۔ ایک آٹے کا بحران ہی دیکھ لیں شدید ہوتا جا رہا ہے کس بنیاد پر برآمد کی اجازت دی گئی۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کا سکہ رائج الوقت تھا اب یہ مافیاز کا وائرس: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے چلیے ہم اپنے محترم کی بات مان لیتے ہیںکہ عمران خان معیشت کی خوشحالی کی نوید بن کر آئے۔ مگر یہ تو ہمارا حق ہے ناں کہ خوشحالی اور نوید کے نئے معنی تلاش کریں۔ ایسے ہی جیسے ریلیف کے معنی بدل چکے ہیں یہ بھی مان لیا کہ حکومت کو بے بس کیا جا رہا ہے مگر یہ بات بھی تو اب عیاں ہو چکی کہ بے بس کرنے والے غیر ہرگز نہیں۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ گزرے لاک ڈائون اور گزرتے ہوئے سمارٹ لاک ڈائون نے ہینڈ ٹو مائوتھ نہیں بلکہ بعض کو ہینڈ ٹو موت کر دیا ہے۔ کرایہ نہ دے سکنے کے بعد دکانیں خالی کر دی ہیں اور وہ لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کیا یہ کوئی چھپی ہوئی بات ہے کہ لوگوں کے لئے مرنا زندہ رہنے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ جسمانی اور ذہنی بیماریاں دوائی لینے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے مہنگی ہو چکی ہیں ابھی ساڑھے سات فی صد مزید بڑھ گئی ہیں یقین کیجیے کہ حقائق بیان کرتے ہوئے مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کوئی فضول کام کر رہا ہوں۔ کوئی نوٹس لینے والا نہیں بلکہ نوٹس لینا تو مہنگائی کرنے والوں کو اشتعال دلانا ہے! بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی سچ پوچھیئے تو ایسے لگتا ہے جیسے ہم سکنجے میں کسے جارہے ہیں۔ حساس اور فکر رکھنے والوں کی مصیبت دہری ہے کہ ہمارے خارجی حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہمارے وزیر اعظم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جی بالکل کھڑے ہیں ادھر آزاد کشمیر کے صدر فاروق فرماتے ہیں کہ موجودہ پالیسی پر ہم 700سال تک بھی لگے رہے تو مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں انصاف کے اداروں کے پاس جانا ہو گا۔ ان دو آرا پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں ہم آخر ہیں کیا۔ ہمارے لیے سب سے بڑی بریکنگ نیوز آئی ہے کہ عثمان بزدار تبدیل نہیں ہونگے۔ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ تو تبدیلی کا استعارا ہیں۔ تبدیلی حکومت کا چہرہ ہے۔ لوگ تو اس معاملے کو بھول چکے اور عادی ہو چکے۔ پھر کیوں احساس دلایا جاتا ہے کہ بزدار ہی رہیں گے۔ لوگ تو قبلہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں عابد نے کہا تھا: اور کہاں لے جائو گے لگ گئے ہم دیوار سے بھی کس کافر کی بزدار صاحب سے دشمنی ہے معاملہ تو کام ہے کہ مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے کا ہے۔ ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ ایک آٹھ سالہ بچی کوزیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اور یہ کوئی ایک خبر نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاکے بھی معمول ہیں۔بڑے ڈاکو ویسے بھی باہر نکل جاتے ہیں مجھے تو سچ مچ اورنج ٹرین کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے اور ڈیپریشن بھی۔ میری قوم کے اربوں روپے اس پر لگے اور سب ایک دم بے کار ہو گئے۔ ہم مٹی پھانکتے رہے۔ مسلسل وعدہ فردا پر ہم ٹال دیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پڑھنے والے اس نوحہ گری سے بھی تنگ ہیں: یہ وقت وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے کہ دیکھو سب کو کسی کو مگر دکھائی نہ دو دیکھیے!کوئی مصلحت آپ کو حق بات کہنے سے نہ روکے تو مزہ تب ہی ہے۔ اب ہم کہاں تک دیکھیں کہ اینیمل فارم Aanimel farmکے حکمرانوں کی طرح اگر وہی کچھ ہو کہ ساری کمانڈمنٹس اپنے لئے جائز قرار دی جائیں تو سب ٹھیک ہے خواجہ آصف کوئی پسندیدہ آدمی نہیں مگر اس نے غلط نہیں کہا کہ کلبھوشن کا نام لینا بھی جرم تھا اور اب اس کو سہولت دینے کے لئے قانون بنایا جا رہا ہے چلیے یہ بھی اچھی بات کہ اس کی تردید بھی کر دی گئی ہے مگر کئی باتیں جو پہلے ممنوعہ تھیں اب جائز ہو گئیں۔ ایسے ہی شعر یاد آ گیا: تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی ہم حکومت کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کیا پوری قوم کی یہ آرزو ہے یہ کامیابی تب ہی ممکن ہے کہ آپ اہل لوگوں سے مشاورت کریں کیونکہ آپ کے پاس دولت مند پیرا شوٹرز ہیں جن کے پاس نہ کوئی وژن ہے اور نہ تجربہ مشیروں کی ایک فوج ظفر موج ہے اور ان کی موجیں ہیں اقتدار کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ دعوں اور وعدوں پہ زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ سنگ دلی کی انتہا ہے کہ لوگوں کی آہ و بکا کے باوجود نہ سرکاری ملازمین کو کوئی تسلی دی گئی اور نہ پنشنرز کو کچھ آسرا دلایا۔ اب بھاشا ڈیم پر بات شروع ہو چکی ۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ نہیں بن سکے گا اور حکومت کا دعویٰ کہ بن کے رہے گا۔ کوئی عوام کی پریشانی پر کیوں نظر نہیں کرتا سب اپنے آپ کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ مخلوق کا بھی سوچو جن پر آپ نے سواری کرنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کالم تمام کر دیا جائے کہ شکوے تو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔ چلیے آپ کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے آخر میں دو شعر: ان کا چہرہ جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے یاد آتے ہیں وہ اکثر ایسے جیسے رستے میں شجر آتا ہے