اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی) وفاقی حکومت نے گوادرمیں نئی بندرگاہ نہ بنانے اور اربوں ڈالر مالیت کے سی پیک منصوبے کے محور گوادر پورٹ فری زون کوآپریشنل کرنے میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کیلئے سات اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ بلوچستان حکومت کی پابندی کی وجہ سے 5سال گزرنے کے باوجود گوادر پورٹ فری زون کی 18ہزار ایکڑ اراضی کا قبضہ نہیں مل سکا۔ پلاننگ کمیشن نے ماسٹر پلان کے تحت زمین کے حصول کا 48ار ب روپے کا پی سی ون واپس کردیا ہے ۔ 92نیوز کو موصول دستاویز کے مطابق گوادر بندرگاہ کا ماسٹرپلان 2006میں غیر ملکی کنسلٹنٹ کی جانب سے تیار کیا گیا۔ماسٹر پلان کے تحت 50کلومیٹر کا ساحلی علاقہ جبکہ 9ہزار ہیکٹر کا علاقہ صنعتوں کیلئے وقف کیا گیا۔23جنوری2007کو اس وقت کے وزیر اعظم کی سربراہی میں گوادر پالیسی بورڈ کے اجلاس میں ماسٹر پلان کی منظوری دی گئی۔ماسٹر پلان کے تحت بغیر کسی رکاوٹ کے بندرگاہ پر ترقیاتی کاموں کے آغاز کیلئے زمین کے جلد حصول کی سفارش کی گئی۔گوادر بندرگاہ ماسٹر پلان کے تحت ایریا 1میں کثیر استعمال کیلئے 361ایکڑ اراضی کے حصول کی سفارش کی گئی جس میں سے 128ایکٹر اراضی گوادر بندر گاہ کے ماسٹر پلان کی منظوری سے قبل 2006میں پی ایس ڈی پی کے تحت 2کروڑ80لاکھ روپے میں خریدی گئی۔ایریا2کیلئے 2ہزار283ایکڑ اراضی پی ایس ڈی پی کے تحت2015میں 6ارب روپے کی رقم سے حاصل کی گئی۔بندرگاہ کاپہلاصنعتی علاقہ 6ہزار 474ایکڑ جبکہ دوسرا صنعتی علاقہ 12ہزار355ایکڑ پر مشتمل ہے ۔زمین کے حصول پر پابندی اور پی سی ون کی عدم منظوری کے باعث دونوں صنعتی علاقوں کیلئے مجوزہ اراضی کو تاحال حاصل نہیں کیا جا سکا۔زمین کے حصول کیلئے عائد پابندی کو ختم کرنے کیلئے 17جنوری2019کو وزیر اعظم کو سمری ارسال کی گئی جس پر وزیر اعظم کی جانب سے وزارت بحری امور کو معاملے پر بریفنگ دینے کی ہدایت کی گئی۔تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا۔کوہ مہدی سے سربندر کا 10مربع کلومیٹر کا علاقہ ریزو ایریاقرار دیا گیا۔اس علاقے کو مرکزی بندرگاہ کی حدود میں شامل نہیں کیا گیا جس کے باعث مستقبل میں بندرگاہ کی توسیع متاثر ہونے کاامکان ہے ۔وزارت بحری امور کے مطابق دنیا کی تمام بڑی بندرگاہوں کے ساتھ صنعتی علاقے موجود ہیں جس کی وجہ سے کاروبار کی لاگت میں کمی آتی ہے ۔جبل علی (متحدہ عرب امارات)سلالہ (عمان)سنگاپور اور پورٹ قاسم کی بندر گاہ پر متعین شدہ صنعتی علاقے موجود ہیں جن کو متعلقہ بندرگاہ کے حکام کی جانب سے چلایا جاتا ہے ۔وفاقی وزیرعلی زیدی کی جانب سے گوادر بندرگاہ کے علاقے میں 300میگاواٹ کول پاور پلانٹ کی تعمیر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔وزیر معاشی امور کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی نہ ہونے اور پانی کی قلت معاشی سرگرمیوں میں بڑی رکاوٹ تھیں۔کابینہ کی کمیٹی برائے سی پیک کی جانب سے گوادربندرگاہ کو جلد از جلد فعال بنانے کیلئے اقدامات تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔کمیٹی کی جانب سے گوادر بندرگاہ پر مزید بندرگاہ قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔وزارت بحری امور کو گوادر میں اسٹریٹیجک پلان کے تحت کام تیز کرنے کی ہدایت کی گئی جس کی منظوری وزیراعظم کی زیر صدارت ساؤتھ بلوچستان ڈویلپمنٹ پروگرام میں دی گئی تھی۔وزارت بحری امور اور کنسیشنئر گوادر پورٹ،فری زون کودو ہفتے کے اندررعایتی کاروباری منصوبے کے حوالے سے کمیٹی کوتجاویز دینے ، پاور ڈویژن کو گوادر میں بجلی کی فراہمی کیلئے دو ہفتے کے اندر سمری ارسال کرنے ، سرمایہ کاری بورڈ کو گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے آزاد تشخیص دو ماہ کے اندر کرانے ،سرمایہ کاری بورڈ کو سی پیک خصوصی معاشی زون میں سرمایہ کاری کی مراعات کی رپورٹ اور دوسرے ممالک کے معاشی زون کی جانب سے مراعات کی تفصیلات پیش کرنے ،پی ایس ڈی پی پر انحصار کم کرنے کیلئے وزارت بحری امور کو تمام بندرگاہوں کیلئے مشترکہ ہولڈنگ کمپنی کے قیام کے حوالے سے امکانات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔اس حوالے سے سفارشات مناسب فورم کو فراہم کی جائیں گی۔