یوں تو منتخب جمہوری حکمرانوں کے مظالم کی تاریخ اوڈلف ہٹلر کے نام سے ’’روشن‘‘ ہے جو جرمن قوم کے دلوں کی دھڑکن اور ان کا منتخب چانسلر تھا ۔لیکن اس کے مظالم صرف اپنی ہی قوم کی ایک مذہبی اقلیت ’’یہودیوں‘‘ تک محدود رہے، مگر گوانتا ناموبے کا عقوبت خانہ ایک ایسا عالمی ٹارچر سیل تھا، جس میں دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کو لا کر بدترین تشدد اور درندگی کا نشانہ بنایا گیا ۔ ہٹلر کے خلاف تو آدھی سے زیادہ دنیا متحد ہو گئی تھی اور اسے شکست دینے کے بعد آج تک اسے مسلسل بدنام کیا جاتا ہے۔دوسری جانب امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ، جہاں عجائب گھروں کا بھی ایک شہر آباد ہے وہاں بڑے بڑے عجائب گھروں کے ساتھ خاص طور پر ایک اتنا ہی بڑا ’’ہالو کوسٹ‘‘ (Holocaust) میوزیم بھی ہے جس میں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم کے شواہد رکھے گئے ہیں۔ کبھی ایسا ممکن ہے، کہ دنیا کے کسی ملک کے کسی دارالحکومت میں خواہ وہ اسلامی ہی کیوں نہ ہو ، ایک ’’مسلم ہالو کوسٹ‘‘ میوزیم بنایا جائے جس میں صرف گوانتا ناموبے کے حراستی (Detention) مرکز میں ڈھائے جانے والے مظالم کو عبرت کے نمونوں کے طور پر محفوظ کیاجائے، اس کے ساتھ ساتھ اس میوزیم میں امریکہ نے جو اپنی سرزمین سے دور دیگر ممالک میں بھی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں، ان سے بھی شواہد اکٹھے کرکے یہاں ہر خاص و عام کے لیے سجائے (Display) جائیں۔ لیکن ایسا تو اس ’’جمہوری‘‘ دور میں ہی نہیں بلکہ کسی جمہوری دور میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔اگر کسی نے ارادہ کر بھی لیا تو دنیا بھر پر قابض تمام جمہوری حکومتیں اور ان کے پالتو انسانی حقوق کی انجمنوں کے ’’بھونپو‘‘ بھانت بھانت کی بولیاں بولے لگیں گے۔ وہ پکار پکار کر کہیں گے کہ اگر مسلمانوں پر دنیا میں ہونے والے ان مظالم کے شواہد کسی ایک چھت تلے جمع کردیئے گئے تو یہ عمارت یا میوزیم، دراصل دہشت گردی (Terriorism) یا شدت پسندی (Extremism) سے وابستہ افراد کو عزت (Glorify) کرنے کے مترادف ہو گی۔ مگر تاریخ اپنے شواہد خود زندہ رکھتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہر لکھنے والا واقعات کو اپنے نقطۂ نگاہ اورا پنے تعصب سے تحریر کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی لاتعداد لوگوں کی مختلف زاویۂ نگاہ سے لکھی گئی تحریروں میں سے سچ ضرور جھانکتا ہے اور گوانتا ناموبے پر لکھی گئی تحریروں کا زندہ سچ یہ ہے کہ یہ جدید انسانی تہذیب کا ایک بدترین عقوبت خانہ تھا، جس میں قیدیوں پر تشدد، ظلم، دہشت اور بربریت کے نت نئے سائنسی طریقے اپنائے گئے۔ ان تمام طریقوںکی تفصیلی روئیداد ایسی تمام سوانحی سرگذشتوں میں ملتی ہے جو ان قیدیوں نے تحریر کی ہیں جوگوانتا ناموبے میں بے گناہی کی زندگی گزار کر رہا ہوئے۔یہ وہ لوگ تھے جن کے خلاف کوئی واضح جرم بھی موجود نہ تھا، تو ان پر فرد جرم کیا عائد کی جاتی۔ سالوں تشدد کے بعد رہا کر دیئے گئے۔ ان سرگذشتوں میں ایک سفیر کی لکھی ہوئی سوانح بھی ہے، جس کا صرف ایک ہی جرم تھا کہ وہ پاکستان میں طالبان کی اس افغان حکومت کا سفیر تھا جسے پاکستان تسلیم کرتا تھا۔ کسی سفارت کار کو گرفتار کر کے اس کو دشمنوں کے حوالے کرنا، انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا۔ ایسا تو چنگیز اور ہلاکو بھی نہیںکیا کرتے تھے۔ ملا عبد السلام ضعیف ، جس کے گھر 2 جنوری 2002ء کی رات تین پاکستانی اہلکار آئے اور ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کا پیٹ موٹا اور ہونٹ بڑے بڑے تھے، بقول ملا ضعیف ’’دوزخ کا ایلچی لگتا تھا‘‘ نے انگریزی میں کہا ’’Excellency you are no more Excellency‘‘ بڑے محترم اب تم محترم نہیں رہے ہو اور پھر اسے ایک ایسی حالت میں گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا، کہ اس کے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے اور وہ اس لیے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہا تھا کہ اس کے پاس ان کے لیے کوئی حرفِ تسلی نہ تھا۔ اس کی آنکھ پر پٹی باندھ کر ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جس کی میز پر پاکستانی پرچم پڑا ہوا تھا، باہر ہیلی کاپٹر کی آواز پھڑپھڑائی، امریکی اندر داخل ہوئے، چند لمحوں کے بعد ملا ضعیف جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اس نے خدا حافظ کے الفاظ سنے، اور اس کے بعد امریکیوں نے اس پر لاتوں، گھونسوں اور مکوں کی بارش شروع کر دی۔ اذیت کا یہ سفر جو پاکستان سے شروع ہوا، بگرام سے ہوتا ہوا گوانتا ناموبے جا پہنچا۔ یہ سرگزشت ایسی ہے کہ اس کا ہر صفحہ آپ کو رلاتا ہے اور بحیثیت پاکستانی شرمندگی کی ذلت کے گندے گٹر میں ڈبکیاں بھی لگواتا ہے ۔کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو پرویز مشرف کا وہ دور یاد آجاتا ہے کہ جب اس ملک میں خونخوار بھیڑیوں کی طرح چھاپے مار مار کر لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا تھااور مشرف کی کتاب ’’In the line of fire‘‘کے مطابق پیسے لے کر امریکہ کو بیچا جا رہا تھا۔ سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا، ’’جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا، اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا‘‘ (صحیح بخاری)۔ جرمنی میں رہنے والے ایک ترک ’’مراد کرناز‘‘ کی سرگذشت بھی پڑھنے والی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’گوانتا ناموبے میں پانچ سال‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ نوجوان گیارہ ستمبر کے بعد 3اکتوبر کو فرینکفرٹ سے اپنی ماں سے اجازت لے کر پاکستان آیا، یکم دسمبر 2001ء کو واپس جرمن جانے لیئے پشاور ایئر پورٹ جا رہا تھا کہ راستے میں پولیس نے چیکنگ کی اور صرف کیمروں کی موجودگی کی وجہ سے اسے گرفتار کر کے تین ہزار ڈالر میں امریکیوں کے ہاتھ بیچ دیا گیااور یوں وہ اپنی بے گناہی کا واویلا کرتا گوانتا ناموبے پہنچا دیا گیا۔برمنگھم کا معظم بیگ جو انگلستان کے سیکولر لبرل ماحول سے نکلنا چاہتا تھا۔وہ 2001ء کے شروع میں اپنی بیوی زینب اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت کابل منتقل ہو گیا۔ افغانستان پر امریکی حملہ ہوا، وہ بیوی بچوں کو لیکر اپنے آبائی گھر اسلام آباد پہنچ گیاکہ شاید وہاں محفوظ ہوگا۔ لیکن ڈالروں کے دیوانے بھیڑیوں نے اسے بھی گرفتار کر کے امریکیوں کو بیچا، جو اسے گوانتا ناموبے لے گئے۔ کوئی جرم ثابت نہ ہو سکتا تھا،رہا کرنا پڑا۔ وہ رہا ہوا تو اس نے ایک شاندار سرگذشت تحریر کی جس کا نام ’’Enemy Combatant‘‘ یعنی ’’دشمن جنگجو‘‘ ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اس کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ وہ کسی ایسے ملک میں رہے جہاں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور اس وقت صرف افغانستان ہی واحد ملک تھا جہاں اسلامی طرز زندگی میسر تھا۔ میری اس خواہش کی مجھے اسقدر اذیت ناک سزا ملے گی، میں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ عبد الرحیم مسلم دوست المعروف بدر الزمان بدر کی سرگذشت ’’گوانتا ناموبے کی ٹوٹتی زنجیریں ‘‘ میں ان تمام مظالم کی تفصیل ہے جو ان لوگوں نے برداشت کئے۔ ان مظالم کی تفصیلات بیان کرنے کیلئے گھنٹوں گفتگو یا کئی سو صفحات کی تحریر درکار ہے۔ امریکہ طالبان جنگ ،انسانی تاریخ کا عجیب و غریب معرکہ تھا جو افغانستان میں لڑا گیا۔ پوری دنیا کے چھ ارب لوگ اور حکومتیںایک طرف تھے اور صرف ساٹھ ہزار کے قریب طالبان دوسری طرف، لیکن میرے اللہ نے توکل کرنے والوں کیساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور قلیل تعداد رکھنے والے بے سرو سامان طالبان کو عالمی طاقتوں پر فتح دی۔ فاتح طالبان جب قطر کی امن میز پر بیٹھے تو ملا عبد السلام ضعیف سمیت کئی ایسے رہنما، امریکیوںکے سامنے موجود تھے جو گوانتا موبے میں رہ چکے تھے۔لیکن ابھی تو ایک اور مرحلہ آنا باقی تھا۔ وہ ’’مجاہد‘‘ جو میدانِ جنگ سے پکڑے گئے تھے،اور گوانتا موبے لائے گئے ۔ جن کی وجہ سے امریکہ میدانِ جنگ میں رسوا ہو اتھا۔مذاکرات کے وقت فاتح طالبان کا مطالبہ تھاکہ پہلے ہمارے ان کمانڈروں کو رہا کرو جو اسوقت گوانتا ناموبے میں قید ہیں۔ مئی 2014ء میں مولانا خیر اللہ خیرخواہ سمیت پانچ طالبان کمانڈر پورے کروفر سے گوانتا ناموبے سے باہر آئے،جہاز میں سوار ہوئے اور فاتحین کی طرح قطر کے مذاکراتی کمرے میں داخل ہوئے۔ گوانتا ناموبے بند ہو رہا ہے۔ لیکن ایک خواہش دل میں جاگتی ہے کہ کاش اس جگہ پر کوئی منچلا امریکی شکست کی یادگار تعمیر کر دے۔ امریکہ میں ہالوکوسٹ میوزیم بھی تو سمتھ سن (Smith's son)نام کے ایک منچلے نے بنایا تھا۔ (ختم شد)