گوجرہ کی شہرت چہار وانگ عالم دو وجوہات سے تھی۔ ہاکی اور آنکھوں کا علاج، بصارت کی بحالی کے لئے کبھی یہ شہر اس قدر مشہور تھا کہ لوگ ایک ایک ماہ پہلے جا کر داخل ہوتے تھے۔ ہسپتال بھر جاتا تو درختوں تلے کھلے عام مریض چارپائی ڈال کر منتظر رہتے۔ اس دور کے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اللہ نے اس قدر شفا رکھی تھی کہ کبھی دوبارہ مریض کو گوجرہ نہیں جانا پڑتا تھا۔ پاک پتن‘ قصور‘ حتیٰ کہ لاہور سے لوگ اس شہر کا سفر کرتے اور بصارت سے مالا مال ہو کر لوٹتے ۔ہاکی کے کھلاڑیوں نے بھی دنیا میں گوجرہ اور پاکستان کا نام روشن رکھا۔ اس روایت کا تسلسل ہے کہ گوجرہ میں ہاکی سٹیڈیم بن چکا ہے اور آج بھی ایم سی ہائی سکول کا گرائونڈ خالی نہیں ہوتا۔ اگرچہ ہاکی کی جگہ کرکٹ کی آمریت کا تسلط مستحکم ہو چکا ہے مگر پھر بھی ہاکی اور فٹ بال کے کھیل جاری ہیں۔ آج کل گوجرہ کی وجہ شہرت اس شہر کا کبوترروں والا قبرستان ہے۔ شہر کے شمالی حصے میں برلب نہر ایک شادی ہال تھا جہاں مجھے جانا تھا مگر دوست کے بیٹے کی شادی میں دھند آڑے آ گئی اور شرکت سے محروم رہا۔ کچھ دن بعد معذرت نما مبارکباد دینے گیا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت دکھائی جہاں اس نے ایک طرف پرندے اور دوسری طرف ہر قسم کے پھولوں کا جہان آباد کیا ہوا تھا۔ آج کل آنکھیں اصلی پھولوں سے لے کر حکمرانوں تک کو دیکھنے کے لئے ترس گئی ہیں۔ پھول دیکھنے اور ان کی خوشبو سونگھنے کی تمنا پوری ہونے پر ہر پھول کو چھونے کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کیا مگر دوسری تمنا جانے کب پوری ہو گئی۔ قدرت کے دونوں نظارے ایک ہی چھت پر دیکھ کر میزبان کی گھر کی طرح فراخدلی دیکھ کر ان کے اس حسین انتخاب پر خوب داد دی۔دل اور آنکھیں مسرور و مسحور ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک مشرق کی طرف دیکھا تو حیرت سے مبہوت ہو گیا۔ درختوں کا جھرمٹ اور تاحد نگاہ درختوں پر پرندوں کی اڑانیں گویا زمین پر جنت کا گمان ہونے لگا ۔ میں نے میزبان دوست سے چائے کا کپ پی کر اجازت چاہی تو قبرستان کی طرف چل پڑا۔ قبرستان کے اطراف میں بچھی ہوئی سڑک صاف ستھری تھی۔ دیوار کے اوپر خوبصورت ریلنگ کے اوپر قرآن کریم اور احادیث نبویؐ کے ساتھ عظیم ہستیوں کے اقوال کے بورڈز تھے‘ کبوتروں والا قبرستان میں داخل ہوا تو جنازہ گاہ کا دکش منظر دیکھ کر کو اس گوشہ عافیت کی تزئین کرنے والوں کے بارے میں ان کے ذوق کی تحسین کی۔ سفید ٹائلز کے اوپر اسماء الحسنیٰ اس طرح کندہ تھے گویا الفاظ تلاوت میں مصروف ہوں۔ سینکڑوں افراد کا بیک وقت وضو کرنے کا انتظام اور باتھ اور بیسن اسی قبرستان میں دوسرا جنازہ گاہ دیکھا جو ایکڑوں پر محیط تھا۔ محمل نما گھاس اور ہزار نہیں ایک سے دو لاکھ تک لوگ بیک وقت جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اس صورت میں اگر دو یا تین جنازے پڑھنے پڑیں تو آم‘ جامن‘ شیشم اور سفیدے کے درخت جو کہ باقی درختوں کے لیڈر نظر آ رہے تھے زلف دراز کی طرح ان کی شاخیںہر آنے والے کے لئے جھوم جھوم کر استقبال کر رہی تھیں۔ قبرستان کے داخلی دروازے سے داخل ہوا تو ٹف ٹائیل والا یہ راستہ اس قدر وسیع تھا دو گاڑیاں آمنے سامنے سے گزر سکتی ہیں جابجا ہاتھ والے نلکے پھولوں کی باڑ کھلے ہوئے تھے۔ خوشنما پھول اور بعض گوشوں میں تو پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں ۔پورے قبرستان کے اندر اس قدر کھلی سڑک ہے کہ گاڑی اور موٹر سائیکلیں بہ آسانی جا سکتی ہیں۔قبرستان کے حسن ترتیب کو اس قدر ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا کہ کسی قبر کو پھلانگنا نہیں پڑتا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے راستے اور پگ ڈنڈیاں ان پر پکی اینٹوں کا سولنگ لگا ہوا تھا۔ اس مثالی اور شہر خموشاں کی سب سے دل آویز اور مسحور کن بات یہ تھی کہ صفائی کا اس قدر انتظام تھا کہ گویا آج ہی افتتاح ہوا ہو۔ ایک سو تیس سالہ پرانی قبریں بھی ایسی لگتی تھیں کہ سونے والا اس گھر میں آج ہی شفٹ ہوا ہے اور اپنی اس شفٹنگ پر بڑا خوش ہے۔ جو کچی قبروں کے اوپر کچی مٹی کا پوچا اس طرح پھیرا گیا تھا کہ پرانے زمانے کے پوچے والے گھر اور دیواریں یاد آ گئیں کہ عید کے موقع پر کچے گھروں کو اسی طرح سنوارا جاتا تھا۔ قبرستان میں کئی مزارات دیکھے جگہ جگہ قبروں کے سرہانے قرآن مجید سپارے رکھے ہوئے تھے درود پاک کے خوبصورت بورڈز ار خوش نویسوں کے شاہکار دیکھے۔ مجھے پورے شہر کے لوگوں اور یہاں پر ابدی اور سکون کی نیند کی آغوش سے لطف اندوز ہونے والوں پر رشک آیا کہ کوئی قبر ایسی نہیں تھی جس پر پھولوں کی پتیاں نہ پڑی ہوں۔ بے شمار اقسام کے درخت دیکھ کر چھانگا مانگا یاد آ گیا میں سوچ میں پڑ گیا کہ درختوں کا اس قدر سایہ ہے کہ کسی قبر پر دھوپ نہیں پڑتی۔ کبوتروں والا قربستان‘ کبوتروں والے بزرگ کی وجہ سے مشہور ہے کہ وہ آئے تو کبوتروں نے بھی اپنا بسیرہ ان کے ساتھ ہی مستقل کر لیا۔ اس قبرستان میں کام کرنے والے گورکن ننگے پائوں گرمی سردی ہر وقت ہاتھ میں جھاڑو پانی سے غسل دینے والی پینٹ کی خالی بالٹیاں اٹھائے پھرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ماشکی مشکیزوں کے ذریعے گلیوں اور بازاروں میں پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ چھڑکائو کرتے تھے یہاں کے منتظمین جو کہ گورکن ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں جس دن کسی سرکاری ادارے کا سایہ ادھر پڑ گیا اس دن یہ قبرستان پاکستان کا نقشہ پیش کرے گا وہ دن جمعرات کا تھا اور میں قبرستان کا سب سے انمٹ منظر دیکھ کر حیران ہو گیا کہ تقریباً ہر قبر کے سرہانے یا قدموں کی طرف لواحقین تلاوت کا تحفہ اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے ۔فاتحہ کر کے میں جب قبرستان سے باہر نکلا تو یہ خیال دامن گیر رہا کہ انتہائی دیانتدار اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والے گورکنوں جسے لوگوں کی پاکستان کوبھی ضرورت ہے۔