روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق گوجرانوالہ میں خسرہ کی وبا سنگین صورت حال اختیار کر گئی ہے اور ذرائع کے مطابق ضلع بھر میں 8سے زائد بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2016ء سے پاکستان میں خسرہ کے رپورٹ شدہ کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے رواں برس فروری میں ضلع موسیٰ خیل میں خسرہ کی وجہ سے 5بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2016ء میں پاکستان میں خسرہ سے 2845بچے متاثر ہوئے تھے جبکہ 2017ء میں یہ تعداد 6494 تک پہنچ گئی تھی اس سنگین صورت حال کا تقاضہ تو یہ تھاکہ حفاظتی انتظامات میں بہتری کے ساتھ وبا کے متوقع حملہ کی صورت میں متاثرہ بچوں کے لیے بہترین علاج معالجہ کی سہولیات کو یقینی بنایا جاتا۔ تحریک انصاف پہلے ہی یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ پنجاب حکومت تعلیم اور صحت کو نظرانداز کر کے وسائل سڑکوں، پلوں، میٹرو بسوں اور ٹرین پر خرچ کر رہی ہے۔ ان کا تو یہاں تک دعویٰ ہے کہ پنجاب حکومت نے اورنج ٹرین پر جو 400ارب روپے خرچ کیے ہیں اس سے صوبہ میں 100کے قریب بین الاقوامی معیار کے ہسپتال بنائے جا سکتے تھے۔ گوجرانوالہ کے ڈویژنل ہیڈ کواٹر کے بچوں کی وارڑ کے انچارج پروفیسر بھی یہی رونا رو رہے ہیں کہ گوجرانوالہ میں چلڈرن ہسپتال نہیں اس لیے وہ ایک بیڈ پر چار چار بچوں کو ڈالنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی عدم دلچسپی کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی وزیر صحت نے خسرہ کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر 2018ء میں ملک بھر میں خسرہ کی ویکسینیشن کا عندیہ دیا تھا جو صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث ممکن نہ ہو سکا۔ بہتر ہوگا پنجاب حکومت اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کے تعین کے ساتھ فوری طور پر متاثر بچوں کے علاج کے لیے مناسب سہولیات کا بندوبست کرے تا کہ اس وبا کو پورے ملک میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔