جناب گوہر ایوب خاں نے ایک ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے تاریخ کا آدھا سچ بیان فرمایا تو یہ بھی غنیمت ہے۔ کہا‘ 1965ء کے صدارتی الیکشن براہ راست(یعنی عوام کے ووٹوں سے) ہوتے تو والد صاحب کبھی نہ جیت پاتے۔ یہ معرکہ فاطمہ جناح سر کر لیتیں۔ یعنی اتنا اعتراف تو کر لیا کہ ایوب خاں عوام میں مقبول نہیں تھے۔ عوام فاطمہ جناح کو چاہتے تھے۔ انہیں مادر ملت مانتے تھے ‘ بھارت کا ایجنٹ نہیں تھا۔ یہ حق 80ہزار بی ڈی ممبران کو تھا۔ اس وقت بھی دیوتائوں کا ڈاکٹرائن نہیں تھا کہ عوام اس قابل نہیں کہ انہیں حق رائے دہی دیا جا سکے۔ جو آدھا سچ بیان فرمانے سے گوہر ایوب خاں نے احتراز برتا وہ یہ تھا کہ بی ڈی ممبران کی اکثریت بھی فاطمہ جناح کے حق میں تھی۔ مادر ملت نے محدود حلقہ انتخاب سے بھی الیکشن جیت لیا تھا لیکن پھروہی ٹیکنالوجی استعمال کر کے ایوب خاں کو جتوایا گیا جوبعد کے الیکشن میں بروئے کار لائی گئی ع اس دل سے تیری یاد بھلائی نہ گئی ٭٭٭٭٭ دیوتائوں کی ٹیکنالوجی جیت گئی لیکن ملک ہار گیا۔ ملکی یک جہتی میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس فتح کے صرف سات برس بعد ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایوب خاں تو اس فتح کے بعد پانچ سال تک برسر اقتدار رہے لیکن حکومت کے مزے نہ لے سکے۔ ملک میں بے چینی سڑکوں پر آ گئی تھی۔ پہلے حزب اختلاف نے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک چلائی۔ تحریک کوئی فوری نتیجہ تو برآمد نہیں کر سکی لیکن دیوتائوں کا عرش ڈول گیا اور پھر ڈولتا ہی چلا گیا۔ حبیب جالب کے طنزیہ گیت۔ ایوب خاں کے زندہ باد‘‘ کو قومی ترانے کی سی حقیقت حاصل ہو گئی۔ اس وقت کاف لیگ تھی یعنی کنونشن لیگ۔ اس کے کارکن جہاں بھی جاتے انہیں اس نئے قومی ترانے کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ زمانہ بہت طلاطم خیز تھا۔ دیوتا ہر مخالف کو بھارتی اور امریکی ایجنٹ قرار دے ڈالتے۔ فاطمہ جناح بھی نہ بچیں لیکن سب سے پرلطف معاملہ مولانا مودودی مرحوم کا تھا۔ ایوب خاں اور ان کے وزیر انہیں بیک وقت بھارت اور امریکہ‘ دونوں کا ایجنٹ قرار دیتے۔ تب بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اور مولانا مودودی مرحوم نے یہ کمال کر دکھایا کہ دونوں دشمنوں کے بیک وقت ایجنٹ بن گئے۔ ٭٭٭٭٭ ایوب خاں کے خلاف تحریک کا آغاز متحدہ حزب اختلاف نے کیا جس میں مولانا مودودی‘ چودھری محمد علی‘ نوابزادہ نصراللہ اور دوسری جماعتوں کے لیڈر شامل تھے۔ ملک بھر میں اس نے بڑے بڑے جلسے کئے جنہوں نے ایوب خاں کو بے چین کر دیا۔ بے چینی ان کی ڈائری میں ملتی ہے۔1967ء کے بعد میدان میں بھٹو صاحب اور ان کی پیپلز پارٹی کا ورد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس حصہ ملک کی سب سے بڑی قوت بن گئی۔ بھٹو صاحب جہاں بھی جاتے لاکھوں امڈ آتے ایوب خاں کے حامی ایسے غائب ہوئے کہ ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے۔ شیخ مجیب کو مشرقی حصہ ملک میں اس سے بھی زیادہ مقبولیت ملی۔ بھٹو صاحب مغربی پاکستان کی 40فیصد آبادی کے محبوب لیڈر تھے تو مجیب الرحمن مشرقی حصہ ملک کی 80فیصد آبادی کے نمائندہ بن گئے اور انوکھی بات تھی کہ بھٹو نے مقبولیت تین چار سال کے جلسے جلوسوں کے بعد حاصل کی۔ مجیب نے یہ منزل چند مہینوں میں حاصل کر لی۔1969ء کے شروع میں وہ رہا ہوئے اور اسی سال کے آخر تک وہ بنگلہ بندھو بن چکے تھے بعد کی کہانی معلوم ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس دور میں مخالفوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دینا دیوتائوں کا سب سے کارگر ہتھیار تھا‘ آج ’’کرپشن‘‘ کا الزام اس سے بھی موثر اور زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ اگرچہ بعض مخالفوں کے خلاف یہ دونوں ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں جیسا کہ نواز شریف بیک وقت کرپٹ بھی تھے اور بھارتی ایجنٹ بھی لیکن اس اعزاز میں وہ منفرد ہیں۔ باقی ماندہ مخالفوں کے لئے زیادہ ترکرپشن کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ بس ایک خبر چلا دو کہ فلاں اتنے کھرب کھا گیا۔ درجن بھر ٹیلی ویژن چار درجن بھر تجزیہ کاروں کی مدد سے کھائے جانے والے کھربوں کا ماتم کرتے نظر آئیں گے اور کئی مہینے بعد پتہ چلے گاکہ کھربوں کیا‘ اربوں یا کروڑوں کا چکر بھی نہیں تھا بلکہ سرے سے کوئی چکر ہی نہیں تھا۔ دیوتائوں کے پجاری غلام اسحاق خود بھی چھوٹے موٹے دیوتا بن چکے تھے۔ بے نظیر کی حکومت برطرف کی اور کھربوں کی کرپشن کا الزام لگا دیا اس کھربوں کی کرپشن کا ’’لائن شیئرٔٔ آصف زرداری نے ہڑپ کیا۔ غلام اسحاق نے آصف زرداری کی کھربوں کی کرپشن کے افسانے حب الوطنی کے درد میں گوندھ کر نوحوں کے انداز میں پڑھے اور مہر لگ گئی کہ زرداری سے بڑا کرپٹ روئے ارض پر کوئی ہے ہی نہیں۔ اڑھائی سال بعد نکے دیوتا نے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی اور اسی آصف زرداری کو سینئر وزیر بنا لیا۔ گویا کھربوں کی کرپشن ہوا ہو گئی ع جو سنا افسانہ تھا آصف زرداری اور کرپشن کے حوالے سے وفاقی مشیر (دراصل وزیر) اطلاعات فردوس عاشق کا ایک ٹی وی انٹرویو عوام الناس میں خاصا زیر بحث ہے۔ فرماتی ہیں۔ آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات ہیں جب تک ثابت نہیں ہوتے انہیں ’’کرپٹ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ کیا واقعی؟ ان کے قائد محترم تو صد ہزار بار آصف زرداری کو ’’سرٹیفائڈ چور‘‘ قرار دے چکے۔ اتنابڑا سرٹیفکیٹ انہوں نے ثابت ہوئے بغیر ہی جاری کر دیا؟ بہرحال سرٹیفکیٹ کا کیا ہے‘ اسے بدلا کبھی تو جا سکتا ہے۔ کیا پتہ‘ کل کلاں یہ پتہ چلے کہ زرداری کا تو دوسرا نام ہی ایمانداری ہے