بلوچستان کے مسائل اور اقتدار کی چار دیواری کے اندر مختلف النوع عنوانات کے ساتھ ضروریات کی رسہ کشی موجود ہے۔ حکومت کی کارکردگی بس نوٹسز لینے اور متواتر بیانات پر مشتمل ہے ۔شہر میں اگر صفائی کا نظام مفلوج ہے تو اس کے لیے سوال وزیر بلدیات سے ہو نا چاہیے جو عضو معطل ہیں ۔ ایڈمنسٹریٹر کی گوشمالی ہو،بلکہ میٹروپولیٹن کے اندرتطہیر کی جائے۔جس نے فی الواقع شہر کو تباہ کرنے میں مزید کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مناصب سے توقیر کا اظہار نہیں ہوتا ۔ بعض ملنے والے محکموں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔اور کئیوں کو گویا خزانے کی کلید تھمادی دی گئی ہیں۔ حال یہ ہے کہ حکومتی مؤقف بھی واضح نہیں ۔ جامعہ بلوچستان کے اندر دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ یکم نومبر2021کو لاپتہ ہوئے۔ اگلے روز جامعہ کے طلباء نے احتجاج شروع کیا۔ درس و تدریس کا عمل روک دیا ۔ پھر یہ سلسلہ دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں تک پھیل گیا۔ طلبہ تنظیموں اور سیاسی لوگوں نے الزام قانون نافذ کرنے والوں پر ٹھہرا یا ہے۔ چناں چہ مواصلات و تعمیرات کے وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران جامعہ بلوچستان مذاکرا ت کے لئے پہنچ گئے۔ موصوف نے طلباء کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ فرمایا کہ’’ تعلیمی اداروں میں تعلیم کھلے ماحول میں ملنی چاہیے۔ طلباء میں صلاحیتیں ہیں مگر ان کی صلاحیتوں کو مختلف حیلے بہانوں سے روک دیا جاتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ انہیں کھلے ماحول میں تعلیم کے مواقع دے،بلوچستان کے طلباء کا گلہ نہ دبایا جائے۔‘‘ یعنی بادی النظر میں کھیتران کی گفتگو نے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ساحلی شہر گوادر میں 15نومبر سے ’گوادر کو حق دوـ‘ تحریک کے نام سے دھرنا ہورہا ہے۔ خواتین اس بڑی تعدا دمیں نکلی ہیں کہ اس کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس تحریک کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں۔جماعت اسلامی بلوچستان نے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ پہلی رو میں کھڑے ہیں۔ وہاں کے عوام ان کی قیادت میں اکٹھے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان غریب و مچھیرے خاندان کے فرد ہیں ۔ تعجب ہے کہ عبدالقدوس بزنجو سرکار نے ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ اس فعل میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا رکن اسمبلی حمل کلمتی اور صوبائی وزیر ظہور بلیدی کی رضا و منشا بیان کی جاتی ہے ۔ دونوں بلوچستان اسمبلی میں گوادرا ور مکران سے منتخب نمائندے ہیں۔ گویا دوسروں کی طرح انہیں بھی عوامی احتجاج ایک آنکھ نہیں بھا تا ہے۔ ٹرالنگ مافیا بھی یقینا پشت پر ہے۔ جام کمال کابینہ کے اکبر آسکانی مافیا کے شریک دھندہ رہے ہیں ۔حمل کلمتی کا بھی ٹرالنگ مافیا سے یارانہ رہا ہے ۔جام کمال نے انہیں روکا تو ناراض ہوکر قدوس بزنجو کے حلقہ میں شامل ہوئے۔ افسر شاہی اور مقامی انتظامی عہدیداروں کے آگے بھی جام کمال کھڑے ہوئے۔ حال ہی میں جام کمال اس بارے میں گفتگو بھی کرچکے ہیں ۔ عبدالقدوس بزنجو ایسا کچھ بھی روکنے کے حا می نہیں ہے ،ہوتے تو اپنی کابینہ میں پھر اکبر آسکانی کو فشریز کا محکمہ نہ دیتے۔ بات ذہن میں رہے کہ سندھ کے سمندر سے تین ہزار ٹرالر شکار کے لیے بلوچستان کے حدود میں آتے ہیں ۔ ہر ٹرالر میں نو ٹن مچھلی اٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ فی ٹرالر دو لاکھ روپے لیے جاتے ہیں ،جو ماہانہ ساٹھ کروڑ بنتے ہیں ۔یہ خطیر رقم اکبر آسکانی ،محکمہ ماہی گیری ، اوپر نیچے سب میں تقسیم ہوتی ہے ۔جبکہ مقامی ماہی گیر کے لیے کو متعین کردہ صوبائی حدود میں بھی طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاچکی ہیں ۔ گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات میں ٹرالنگ یعنی سندھ سے آنے والی بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام، پاک ایران سرحد پر مقامی سطح پر ہونے والی تجارت میں حائل رکاٹوں کو دور کرکے سرحد پر ٹوکن سسٹم اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مقامی ماہی گیروں کو سمندر تک آزادانہ رسائی دے کر ان کا روزگار بحال کیا جائے، کوسٹ گارڈ اور ایف سی کی طرف سے تنگ کرنے، کشتیوں اور گاڑیوں کو پکڑنے کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ شراب خانوں اور منشیات کے اڈے بند کئے جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان مطالبات میں ایسا کونسا با غیانہ نکتہ شامل ہے کہ جس کی پاداش میں ایک محب وطن شہری اور سیاسی رہنماء کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جائے۔خود حکومت ان مطالبات کو درست تسلیم کر چکی ہے۔اس بابت کچھ اقدامات کئے ہیں۔ مگر مولانا ہدایت الرحمان اور مظاہرین کو مطالبات پر عملدرآمد سے متعلق حکومت پر اعتماد نہیں ۔بات امن کی کی جائے تو جام کمال کی وزارت اعلیٰ کے بعد سیکورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ مخبر کے الزام کے تحت شہری ، مزدور اور سیاسی کارکن قتل ہوئے ہیں۔ نیزگورننس تہہ و بالا ہے۔ وزیراعلیٰ بزنجو ایک نجی ٹی وی کے اینکر کو بتاچکے ہیں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ یا اپنے حلقہ انتخاب میں جام کمال دور کے کسی سرکاری عامل کا تبادلہ نہیں کیا۔ ان کی اس بات میں صداقت نہیںہے ۔ حالانکہ29 اکتوبر کو حلف اٹھانے کے محض دو گھنٹوں کے اندر اندر سی ایم سیکریٹریٹ میں منظور نظر افرادلانے کے فرمان جاری ہو چکے ہیں۔ ایسا مختلف سطح اور جگہوں میں دوہرایا گیا۔ اگر اس کی تردید کی جاتی ہے تو جواب میں تفصیل پیش کرنے میں ہر گز کوئی دقت نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس سے کئیوں کے کاروبار پروان چڑھے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی تو ویسے بھی ملک کی بڑی تعمیراتی کمپنی کے پیٹی ٹھیکیدار کا خطاب لے چکے ہیں۔اخبارات و ٹی وی چینل کے وابستگان تک افسران و سرکاری عاملین کو پر کشش سیٹ اور اضلاع میں تبادلوں کے فائل پیش کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ کوئی بلا عوض تو نہیں کرتا۔ محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کے منصب کے لئے پسندیدہ افراد کی سفارشیں ہو ئی ہیں۔ چناں چہ سردست فرحت جان احمدزئی کو منصب سے ہٹاکر راستہ سہل بنایا گیا۔ یہ رہا موجودہ وزیراعلیٰ ہائوس کے تقدس اورمور حکومت بارے سنجیدگی کا اجمالی جائزہ ۔ درحقیقت گیرائی و گہرائی کی سوچ و طر ز عمل مزید نہیں رہی ہے۔الغرض جام کمال خان چند دن کی رخصت کے بعد کوئٹہ پہنچے ہیں۔ سیاسی و تنظیمی سرگرمیاں شروع کر چکے ہیں ۔نیزگفتگواور ملاقاتوں کا سلسلہ مر بوط ہو چکا ہے ۔ یقینی طور سیاسی دروبست و تبدل کی نشاندہی ہورہی ہے۔