کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ اے سعد فن یہی ہے کہ کہہ جائے آدمی مشکل ترین بات بڑی سادگی کے ساتھ تو جناب بزدار صاحب نے نہ مشکل حل کر دی ہے۔ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بات کی ہے اور پھر اپنی عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ میں نے ایک فیچر دیکھا جو تعلیم کے حوالے سے تھا۔ سرخی دیکھ کر ہی میرے کان سرخ ہو گئے میں آنکھیں جھپکنے لگا۔پہلی بات تو یہ دل کو گدگدائی کہ عمران خاں اور وسیم اکرم پلس یعنی بزدار صاحب کی تصاویر آویزاں تھیں اور سچی بات ہے کہ مجھے یہ ایک ہی تصویر لگی۔ یا یوں کہہ لیں کہ یک جان دو قالب سرخی تھی۔ اب تعلیم گھر گھر اور ضمنی میں لکھا تھا 1227سکول اپ گریڈ کر دیے گئے۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حکومت کو بیٹھے بٹھائے 16روپے کی بچت ہو گی یہ ساری باتیں طلسماتی سی محسوس ہوتی ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ مراد راس جو وزیر تعلیم ہیں اس طرح کی شعبدہ بازی کرتے رہتے ہیں تاکہ گڈ بک میں رہا جائے۔ کئی معاملات میں نہ جانے مجھے مندرجہ ذیل شعر یاد آ جاتا ہے: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا میں نے پورا آرٹیکل نظر نواز کیا اور کئی سوالات نے سر اٹھایا کہ یہ کیسے اور کب ہو گا۔ بظاہر تو یہ عام آدمی کو اپیل کرے گا کہ وہ سکول جو ایلی منٹری تھے اور وہاں کے طلبا اور طالبات کو مزید آگے پڑھنے کے لئے سکول چھوڑ کر گھر بیٹھنا پڑتا تھا کہ وہاں سکینڈری سکول نہیں تھے۔ دوسرا یہ کہ اساتذہ سرپلس ہوتے تو انہیں دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا پڑتا۔ اب 9کمروں کی شرط پر انہیں سکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی اساتذہ جو پرائمری یا مڈل کو پڑھا رہے تھے سکینڈری میں کیسے پڑھائیں گے؟۔ پھر انفراسٹرکچر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میٹرک میں سائنس سبجیکٹس آ جاتے ہیں۔ لیبارٹریز کی ضرورت پڑتی ہے وغیرہ وغیرہ یہ والے مراد راس بھی مراد سعید سے کم نہیں لگتے۔ مراد سعید نے تو پاکستان کا پورا قرض ہی اتار دیا تھا۔ حکومت کے پاس مراد سعیدوں کی کمی نہیں کہ جو دعوے ہی دعوے کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ یہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کی جھلک میں آپ کو دکھا دیتا ہوں کہ یہ تو پہلے کام کو بھی ملیا میٹ کر رہے ہیں۔ دو لاکھ کے قریب اساتذہ نے ابھی 9جون کو اپنی سیلریز کے لئے احتجاج کیا ہے۔ اس کا پس منظر آپ جانیں گے تو سب عیاں ہو جائے گا۔ وہی پرویز الٰہی جس کے نعرے پڑھا لکھا پنجاب کا ہم مذاق اڑیا کرتے تھے اب یاد آتے ہیں کہ انہوں نے P E F پیف پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن جو کہ غلام حیدر وائیں کے دور میں بنی تھی فعال کیا۔2004ء میں اس کی ری سٹرکچرنگ کی۔2006ء میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پنجاب کے سات پسماندہ ترین اضلاع میں کم وسیلہ لوگوں کے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کوالٹی ایجوکیشن فراہم کی۔ 2011ء میں یہ دائرہ 36اضلاع تک پھیلا دیا گیا۔7900پارٹنر تھے۔ پرائمری میں 550روپے مڈل میں600روپے میٹرک سائنس میں 1100 روپے اور میٹرک آرٹس میں 900روپے فی طالب علم اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جانے لگی۔ رزلٹ نے ثابت کیا کہ یہ سلسلہ بہت کارآمد ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے مبصرین نے بھی پیف پارٹنر سکولز کو وزٹ کیا اور اس کی افادیت کو سراہا۔ تفصیل میں جانا ممکن نہیں ۔ مجھے پروگریسو پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر مزمل اقبال صدیقی نے تفصیل بتاتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ ن لیگ کے دور میں پیف میں مزید بہتری آئی تھی۔ پرویز الٰہی کے دور میں 3لاکھ بچے تھے تو شہباز شریف نے اس تعداد کو 31لاکھ تک بڑھا دیا۔جونہی تبدیلی حکومت آئی تو سب کچھ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔5لاکھ بچے نکال دیے گئے پہلے 26لاکھ ہوئے پھر مزید کم ہو کر 23لاکھ رہ گئے۔پہلے 20لاکھ کی ادائیگی ہوئی اور اب کے 10لاکھ کی اور باقی آئندہ پر ڈال دیا گیا۔ پیف کے اونرز نے اساتذہ کے ساتھ مل کر 9جون کو ایک بڑا احتجاج کیا ہے کہ ناجائز کٹوتیاں ختم کی جائیں۔ ان کے بقایا جات ادا کئے جائیں۔ کئی مطالبات ہیں یہ بھی ذہن میں رہے کہ دو سال سے نئے داخلوں پر بھی پابندی ہے اور کسی بھی سکول کو کینسل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کئی رونے ہیں میں نے تو صرف حوالہ دیا ہے کہ حکومت کی تعلیم سے محبت سامنے آ جائے۔ وہی جو جلیل عالی نے کہا تھا: ہم نے تو احتجاج کی خاطر اٹھائے ہاتھ اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا۔ یہ تو خیر پرانی باتیں تھیں۔ تازہ ترین تین کالمی سرخی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے کہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے بجٹ میں 50فیصد کٹوتی کی تیاریاں۔ ہائر ایجوکیشن پنجاب 25ارب کا مطالبہ کیا تھا۔ جبکہ حکومت کے گزشتہ 8ارب کے بجٹ میں بھی آدھی کٹوتی کی جا رہی ہے۔ آنے والے دن کتنے بھیانک آ رہے ہیں۔ مگر ہمارے مراد سعید تو پچھلی حکومتوں پر برسیں گے اور ان کی تقریروں پر عمران خاں فخر سے مسکرائیں گے۔ ٹرک کے پچھے اکثر لکھا ہوتا تیری یاد آئی ترے جانے کے بعد۔ اس حکومت نے بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ مجھے یقینا ان اساتذہ کے ساتھ ہمدردی ہے کہ وہ ایسے وبا کے موسم میں بھی احتجاج کے لئے نکلے۔ نہ جانے ان کی مالی صورت حال کتنی خراب ہو چکی ہو گی۔ظاہر ہے جب تک سکولوں کو واجبات نہیں ملتے وہ اساتذہ کو کیا دیں گے۔ بس کیا کریں ہماری بدبختی ہے کہ ایک تو نالائق لوگوں کے ہاتھ میں نظام آ گیا جو پہلے ہی فرسودہ تھا۔ دوسرا نحوست کہ وبا نے ہم کو آن لیا اور سکول کالجز سب کچھ بند۔یقینا ایسے حالات میں فیچر کی سرخی اب تعلیم گھر گھر نے نئے معنی دیے کہ واقعتاً اب تو سب گھر پر ہی بیٹھے ہیں اور نہ جانے کب تک بیٹھے رہیں گے۔ وہ چند خوش قسمت ہیں جو آن لائن کچھ نہ کچھ پڑھ ہے ہیں۔ وگرنہ اکثر کے پاس تو کوئی لائن ہی نہیں ہے یا پھر ہارڈ لائن ہے۔آپ اسے طبقاتی لکیر کہہ لیں۔ میں نے ایک مرتبہ یونہی لکھا تھا کہ لگتا ہے اب سکول ہی سکول رہ جائیں گے تعلیم نہیں رہے گی۔ اب کھلا کہ تعلیم گھروں میں آ جائے گی۔ دیکھ لیجیے۔تعلیم گھر گھر پہنچ گئی۔