دہشت گردی کے الزامات میں ملوث پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھوپال سے انتخابی میدان میں اتارا، تو ایک ساتھی نے ازراہ مذاق لقمہ دیا کہ بھارت کیلئے ایک نیا وزیر داخلہ تیار ہو رہا ہے۔ وہ ایسے بھارت کی منظر کشی کر رہے تھے، جس میں اتر پردیش کے حالیہ وزیر اعلیٰ اجے سنگھ بشٹ یعنی یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعظم اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر وزارت داخلہ کے تخت پر برا جمان ہونگے۔ مجھے یاد آیا، کہ محض چند برس قبل ہم نیوز رومز میں اسی طرح تفریح کے طور پر امیت شاہ(موجودہ بی جے پی صدر ،جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردئے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کرلے گا۔ اپنی دوسری مدت میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے جہاں کیریر ڈپلومیٹ سبرامنیم جے شنکر کو وزیر خارجہ مقرر کیا، وہیں وزارت داخلہ کا اہم قلمدان اپنے دست راست امیت شاہ کے سپرد کرکے پیغام دیا ، کہ نہ صرف و ہ حکومت میں نمبر دو ہیں بلکہ ان کے جانشین بھی ہیں۔ گو کہ پارٹی کے سینئر لیڈر راج ناتھ سنگھ کی نمبر دو پوزیشن سرکار ی طور پر برقرار رہیگی، مگر وزارت دفاع ان کو منتقل کرنے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ان کے پر کتر ے گئے ہیں۔ کابینہ کے 26اراکین میں 21اراکین اونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی مجموعی آبادی 15فیصد سے بھی زیادہ نہیں ہے۔سینئر وزیروں میں 13 برہمن ہیں،تین نچلی ذاتوں سے اور ایک سکھ ہے۔ بطور مسلم وزیر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی کو شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے برسوں پہلے ایک بار رام پور سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں بہار سے لوک جن شکتی پارٹی کی ٹکٹ پر واحد مسلمان محبوب علی قیصر دوسر ی بار منتخب ہوکر ایوان میں آگئے تھے۔ حیر ت کا مقام ہے کہ ان کو وزارت کے قابل نہیں سمجھا گیا ۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے اسکی توضیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ مودی تو ان کو وزیر بنانا چاہتے تھے ، مگر ان کی پارٹی نے باقاعدہ ایک ریزولیشن پاس کرکے پارٹی صدر رام ولاس پاسوان کو وزیر بنانے کی سفارش کی۔ چونکہ سبھی اتحادیوں کو صرف ایک ہی وزارت دی گئی ، اسلئے لوک جن شکتی پارٹی سے دو ارکان کو وزارت میں شامل کرنے سے توازن بگڑ سکتا تھا۔ رام ولاس پاسوان کی ذہنیت پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کو وزیر بنانے کے بجائے ، خود ہی دعویداری ٹھوک دی، جبکہ انہوں نے انتخاب بھی نہیں لڑا تھا۔پچھلے 20 سالوں سے چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی وہ مسلسل وزارت میں شامل رہے ہیں۔ خیر بھارت میں وزارت داخلہ کا قلمدان انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اسلئے وزراء اعظم اکثر اس عہدہ پر یاتو اپنے انتہائی قریبی یا نہایت کمزور افراد کا تعین کرتے آئے ہیں، جو ان کیلئے خطرہ کا باعث نہ بن سکے۔ پچھلی حکومت میں راج ناتھ سنگھ اوروزارت اعظمیٰ کے دفتر کے درمیان کشمیر کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے پر کئی دفعہ اختلافات سامنے آئے۔ جون2018ء کو جب راج ناتھ سنگھ جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، امیت شاہ کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سیکرٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ ان کی پارٹی کے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لیکر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ نجی گفتگو میں کئی بار انہوں نے اشار ے دیئے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کیلئے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے انکی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا اور ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو انہوں نے کشمیر میں بیک چینل کھولنے کی ترغیب دی تھی۔ مگر اس کوشش کو بر ی طرح سبوتاژ کیا گیا۔ سنہا سے وزیر اعظم نے ملنے سے انکار کیا، اور انکو قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملنے کیلئے کہا گیا، جس نے شکایت کی کہ سنہا کے مشن سے حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ مذکورہ جج کے خلاف کشمیر واپسی پر ہی مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک کیس کی فائل کھول کر اسکو جیل میں پہنچادیا۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کا رشتہ 30سال پرانا ہے۔ 2001ء میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔ گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلم دان دیا گیا تھا اور ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاونٹروں کیلئے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو انکو سہراب الدین اور انکی اہلیہ کوثر کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا۔ اسکے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔ 2013ء میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی ، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اسکی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔ 2014ء کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ (جاری ہے) بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شاہ کیلئے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کیلئے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی کشمیری راہنمائوںکے ساتھ ملاقاتوںپر پابندی لگانے کے بعد مودی حکومت کی اگلی کوشش مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہوگی۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لئے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شاہ ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام مشن 44 ہے اور اس کے تحت نو کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بدھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی 86 نشستیں ہیں جن میں سے 37جموں، 45 وادی کشمیر اور4 لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کھٹوعہ یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازع خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ 370کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جا سکتی ہے۔1954ء اور1960ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کادائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے بالترتیب وزیراعلیٰ اورگورنرکر کے انہیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیاتھا۔جموں کشمیر کے انتخابی نقشہ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی 37نشستوں میں 18 حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں 9 ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے، یہاں پرامیت شاہ وہی فارمولہ اپنانے کیلئے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اتر پردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کوبے اثر بنایا جائے، جبکہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یکجا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بدھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے ، تاکہ آئندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادی کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ پچھلے الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہو سکتی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جراٗت کی تھی۔ لاہور اعلامیہ، اسلام آباد ڈیکلریشن اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی خیمے سے لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ مگر جو اشخاص اِس امید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ'' انسانیت کے دائرے ‘‘میں بات ہوگی انہیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال 1999ء اور 2004ء کے مقابلے خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا بے معنی ہے ۔ امیت شاہ کے وزار ت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اسکے بچائو کے لئے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے بھاگ رہی ہیں،بلکہ یہ لوگ نریند ر مودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی بچی کچی قوت ِمزاحمت جواب دے بیٹھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کی بجائے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال بد قسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہواہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنا رکو بر قرار رکھنے کیلئے کس سے رشتہ جوڑا جائے کس سے ناتہ توڑا جائے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے تئیں ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دور کی بات ہے ،فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے اس کا توڑ کرنے میں این سی ،پی ڈی پی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غمخوار پاکستان کی داخلی صورت حال بھی دلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لئے راستہ ہموار اوروقت شاید موزوں ہے۔