اس میں کوئی شک نہیں کہ شعر، شعور کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بغیر ضرورت، فرمائش، موقع کے سنایا ہوا شعر شعور کی قلعی بھی کھول دیتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ شعر اور حُسن جب تک چونکائے ناں، لوگ نوٹس ہی نہیں لیتے… اور اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ شاعر جب تک سنائے نہ اس کے مرتبے کی خبر نہیں ہوتی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات مشاعرے میں تھرتھلی مچا دینے والا شعر کاغذ پہ آ کے ککھ دا نہیں رہتا … کبھی کبھی تو یہ بھی مشاہدے میںآیا ہے کہ بظاہر اور طرح کا نظر آنے والا شاعر، بالکل ہی اور طرح کا شعر سنا کے حیران کر دیتا ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ کسی دوست نے ایک سچ مچ کے مزدور کہ جو لکڑی والے آرے پہ چرائی کا کام کرتے تھے، سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ موصوف شاعر بھی ہیں۔ حلیہ یہ تھا کہ سر پہ سادہ سے انداز میں باندھا ہوا صافہ، پسینے میں شرابور کُرتہ، دھوتی اور جوتے سے لے کے مونچھوں تک لکڑی کے بُرادے سے بُورے والا بنا ہوا، لیکن جب شعر سنانے پہ آیا تو جان ہی نکال کے لے گیا، ایک شعر آپ بھی دیکھیے: قوس قزح تُوں ربّا مینوں دے چھڈ خاں مَیں وی اپنے یار نوں سُوٹ سواں دیواں بورے والا سے یاد آیا کہ وہاں کچھ عرصہ اپنے دوست جمیل احمد عدیل کی وجہ سے باقاعدہ آنا جانا رہا۔ وہاں پنجابی کے ایک خوبصورت شاعر حنیف صوفی سے تعارف ہوا، جو تھے تو ٹرانسپورٹر لیکن فی البدیہہ شعر کہنے میں انھیں لبِ طولیٰ حاصل تھا۔ انھی بُعدِ قطبین قسم کے پیشوں سے متعلق ہونے کی بنا پر میں نے ’ٹرانسپوئٹ‘ کے عنوان سے ان کا خاکہ بھی لکھا تھا۔ایک دن ان سے محلے کی ایک بزرگ خاتون کہ نام جن کا حمیدہ بی بی تھا اور عرفِ عام میں ’مِیداں‘ کے نام سے جانی اور پکاری جاتی تھی۔ ان کے میاں طویل عرصے سے ملک سے باہر تھے۔ عید آئی تو لوگوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی اپنے میاں کے لیے عید کارڈ خرید کے صوفی صاحب سے لکھوانے کے لیے لے آئی۔ صوفی صاحب نے ان کے جذبات اور موقف سن کے اسے کارڈ میں یوں منتقل کیا: ایہہ گل مینوں آکھی آ کے مِیداں نے تیرے باہجھوں عیداں کاہدیاں عیداں نے آج مجھے قارئین کو یہی بتانا ہے کہ روایتی قسم کے شاعروں نے اپنے ساتھ شاعری کا بھی یہ نقصان کیا ہے کہ لوگوں نے شعر کی طرف توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے سنجیدہ، حتّٰی کہ مزاحیہ شعرا کو بھی نئے نئے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شاعر کا یہ شعر دیکھیے : ؎ سری لنکا ، سری دیوی ، سری پائے نہیں دیکھا ، نہیں دیکھی ، نہیں کھائے جعفر بلوچ کو قدرت نے جن بے شمار خوبیوں سے نواز رکھا تھا، ان میں ایک یہی فی البدیہہ اور ہتھ چھُٹویں شاعری بھی ہے، موصوف نے منیر نیازی کی پوری شخصیت کو دیکھیے اس غیر روایتی شعر میں سمو دیا ہے: ؎ نکلے ساہیوال سے اور جا پہنچے لاہور اس کے بعد اِک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور پانی میں کُنڈی لگا کے مچھلی پکڑنے جیسے صبر آزما عمل سے متعلق لوگوں نے جانے کیا کیا کہہ رکھا ہے، لیکن آپ مانیں گے کہ شاعر کے اس تجزیے کا کوئی جواب نہیں: ؎ چاروں پھاہے لگے ہوئے آں کُنڈی ، ڈور ، گڈویا ، مَیں مچھلی کلچر سے ناواقف خواتین و حضرات کے لیے عرض ہے کہ مذکورہ بالا شعر میں’گڈویا‘ شاعر کا تخلص نہیں بلکہ یہ کینچوے کو کہا جاتا ہے، جو مچھلی کو لبھانے یا ورغلانے کے لیے چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر شیخوپورہ کے ایک اولڑے شاعر ماسٹر الطاف تو ایسی شاعری کے ماسٹر تھے۔ پہلے تو ان کے دونوں مجموعوں کے نام دیکھیے: ’’سارے شہر دی بتّی گئی اے‘‘ اور ’’مذاق توں علاوہ‘‘ پھر ان کے دو شعروں کا مزہ لیجیے: بھانبڑ سانبھ کے بیٹھی اے اِک اِک تِیلی ماچس وچ راوی دے وچ پانی کوئی نئیں گلشن راوی ڈُبدی پئی اے طاہر جمیل ترقی پسندوں میں ایک چلبلی شخصیت والے شاعر تھے۔ ایک زمانے میں اپنے نظریے کے حوالے سے ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا: اے زر کے خداؤ مِرا احسان نہ بھولو مَیں چھین بھی سکتا ہوں مگر مانگ رہا ہوں جب روس نے افغانستان پہ حملہ کیا تو کئی طرح کے ترقی پسندوں کے کئی طرح کے ارمان جاگے، طاہر جمیل نے لکھا : اینویں نال دی جوع وچ رُکیا ایں اَیدھر آ تے آ کے ویکھ ماہی اساں سُنج بنیرے نئیں رہن دِتے اسیں آپ وی کاواں دے نال بولے اسی طرح ہمارے پنجابی کے ایک اور شاعر اپنی ایسی ہی غیر روایتی اور غیر ذمہ دارانہ شاعری کے حوالے سے مشہور تھے، ایک محفل میں انھوں نے غزل سنائی، جس کا مطلع تھا: چھم چھم کر دیاں آئیاں غزلاں جد وی اساں بلائیاں غزلاں ان کی غزل ابھی پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ لالہ بسمل نے اسی زمین میں ایک پوری غزل فر فر سنا دی، جس میں مذکور شاعر کی پیروی، پیروڈی، سراہت اور سرزنش سبھی کچھ موجود تھا، آپ بھی سنیے : ہتھاں نال بنائیاں غزلاں پَیراں دے نال ڈھائیاں غزلاں اوہدے رشتے دار قصیدے اپنیاں نے ہمسائیاں غزلاں اوہدا کل قبیلہ شعری پھُپھیاں ، ماسیاں ، تائیاں غزلاں اوہدا سب سامان وی ادبی تکیے ، کھیس ، رضائیاں ، غزلاں فیر مَیں اوہنوں دھونوں پھڑ کے اَیدھروں ، اوہدروں پائیاں غزلاں