ڈینگی بخار ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔یکم اکتوبر 2022ء تک اس سال ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 30267 تھی۔ اکتوبر کے پہلے دس دن میں دس ہزار مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔دس اکتوبر کو پاکستان میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 41746 تھی۔یکم جنوری 2022 تا 27 ستمبر 2022 تک 25932 مریض ڈینگی سے متاثر تھے۔تین چوتھائی کیس صرف ستمبر کے مہینے میں آئے۔ اس بار سندھ میں کل متاثرہ مریضوں کا 32 فی صد 29 فی صد پنجاب میں او ر کے پی کے میں 25 فی صد تناسب تھا۔2021 ء میں ڈینگی کے مریضوں کی کل تعداد 48906 تھی۔اور 183 اموات وجہ سے ہوئی تھیں۔پنجاب میں ڈینگی کے مریضوں کی کل تعداد 2021ء میں 24146 تھی۔کے پی کے میں 10223 اور سندھ میں ڈینگی کے مریض 5261 تھے۔بلوچستان میں 2054 اور آزاد کشمیر میں 1674 مریض ریکارڈ ہوئے۔2017ء میں ڈینگی کے 22938 مریض تھے۔2018 میں 3200 اور 2019 میں 24547 مریض ڈینگی کا شکار ہوئے۔ 2020 ء میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 3442 تھی۔19 نومبر 2021 سے لیکر 10 دسمبر 2021 تک 16388 مریض ڈینگی کا نشانہ بنے۔ اسی دورانیہ 2020ء میں کل مریض 1153 تھے۔ 2022ء کا سال پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کا سال تھا۔ سوا تین کروڑ افراد بے گھر ہو گئے اور 1500 افراد جان کی بازی ہار گئے۔12800 افراد سیلاب کی وجہ سے زخمی ہوئے۔سندھ میں زرعی رقبہ کا 37 فی صد متاثر ہوا۔کے پی کے میں 16 فی صد اور بلوچستان میں 15 فی صد قابل کاشت رقبہ متاثر ہوا۔پنجاب سب سے کم متاثر ہوا اور کل زرعی رقبہ کا 9 فی صد متاثر ہوا۔سندھ کے ہسپتالوں میں ہر آنے والے 20 مریضوں میں 6 تا 8 ڈینگی سے متاثر ہیں۔پہلے ڈینگی دو قسم کے مچھر سے پھیلتا تھا اب اسلام آباد میں ایک تیسری قسم بھی دریافت ہوئی ہے جو ڈینگی وائرس کے پھیلائو کا باعث بن رہی ہے۔پاکستان میٹرولیجیکل ڈیپارٹمنٹ نے 23 ستمبر 2022ء کو ڈینگی الرٹ جاری کی تھا۔اس الرٹ کے مطابق پاکستان میں ڈینگی کا سیزن 20 ستمبر سے لیکر 5 دسمبر تک ہے۔ڈینگی کے امکانات وہاں پر زیادہ ہیں جہاں درجہ حرارت 26 تا 29 سینٹی گریڈ ہے اور نمی کا تناسب 60 فی صد تک ہے۔ڈینگی ان علاقوں میں زیادہ پھیل سکتا ہے جہاں پر بارش تین ہفتوں میں 27 ملی میٹر سے زائد ریکارڈ کی گئی ہو۔ ڈینگی کا پھیلاؤ اس وقت رکتا ہے جب درجہ حرارت 16 درجے سینٹی گریڈ سے کم ہو جاتا ہے۔ ڈینگی سورج طلوع ہونے کے دو گھنٹے بعد اور سورج غروب ہونے سے دو گھنٹے پہلے زیادہ امکان رکھتا ہے۔ اب ان چالیس دنوں میں ڈینگی پاکستان میں کس قدر تباہی پھیلا سکتا ہے اس کا ادراک لوگوں کو نہیں ہے۔ اس مسئلے کو نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن سمجھ رہی ہے۔ اپوزیشن کا ممکنہ لانگ مارچ ڈینگی کے پھیلائو میں ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی وجہ سے اتنی اموت نہیں ہوئی جتنی ڈینگی کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ اس بار حالات ڈینگی کے لئے بہت ساز گار ہیں۔ لاکھوں بے گھر لوگ سڑکوں پر بغیر چھت کے سو رہے ہیں۔ پانی ابھی تک بہت سے علاقوں میں کھڑا ہے۔ کھڑے پانی میں مچھروں کی بہتات ہے۔ کے پی کے میں پشاور اور پنجاب میں لاہور ڈینگی کے دو بڑے مراکز ہیں۔ محمکہ موسمیات کی وارننگ کے مطابق پاکستان کے دس شہر ڈینگی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ کے پی کے میں پشاور اور پنجاب میں لاہور، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ ، راولپنڈی اور اسلام آباد۔ تمام صوبائی اور فیڈرل ہسپتال اپنی بساط کے مطابق ڈینگی کے جن سے لڑ رہے ہیں۔اس سلسلہ میں مجھے جناح ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ جناح ہسپتال کے ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر یحیٰ کو میں نے رات کے بارہ بجے بھی وزٹ پر دیکھا۔ ڈینگی کا پھیلائو پاکستان میں پچھلے دس سال سے کافی ہے۔ دنیا میں ڈینگی گزشتہ دو دہائیوں سے بہت پھیل رہا ہے۔ 2000ء میں کل کیس پانچ لاکھ تھے جو 2010 میں 24 لاکھ اور 2019 میں 54 لاکھ تک پہچ چکے تھے۔ ڈینگی ایک لا علاج مرض ہے۔ اس سے بچاؤ صرف احتیاط کی صورت میں ممکن ہے۔ یہ مچھر کی چار اقسام سے پھیلتا ہے۔ سب سے پہلے مچھروں کا تدارک ہو نا چاہئے۔ ڈینگی پھیلانے والہ مچھر صاف اور کھڑے پانی میں انڈے دیتا ہے۔ پانی کا اکٹھا ہونے سے روکنا چاہئے۔ گھر میں ٹب اور پانی کے برتن روزانہ کی بنیاد پر خالی ہونے چاہئے۔مچھر مار سپرے کرنی چاہیے پرانے وقتوں میں ملیریا کی روک تھام کے لئے سپرے ہوتی تھی سال میں دو بار۔جب سے کرپشن کی وبا نے یہاں ڈیرے ڈالے ہیں وہ سپرے کا نظام ختم ہو گیا ہے۔ ڈینگی کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف اور عثمان بزدار نے ڈینگی کی وبا پر قابو پانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب بھی سکول اور کالجز میں ڈینگی کے بارے میں کافی کام ہوتا ہے تاہم اب بھی ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ڈینگی کو حقیقی خطرہ نہیں سمجھتا۔ سوشل میڈیا کو بھی اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ فیس بک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر سب پلیٹ فارم کا استعمال ہونا چاہئے۔ ہمارے ٹی وی چینل جو خبر کے نام پر سوائے سنسنی خیزی کے اور کچھ نہیں کرتے۔ ان پر ایک دن کے ٹاک شوز ڈینگی کے بارے میں ہونے چاہئیں اور صحت کے ماہرین کے ساتھ ساتھ حکومت کے ذمہ داران کو بھی ان ٹاک شوز میں حصہ لینا چاہیے۔ جس طرح ہر آفت کے آنے پر ہماری سماجی تنظیمیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کو ڈینگی کی روک تھام کے سلسلہ میں کام کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم بہت سی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہونگے۔ڈینگی کی علامات کی آگاہی ہونی چاہئے۔ ڈینگی کی علامات میںشدید سر درد، آنکھوں کے عقب میں درد،جوڑوں میں اور پٹھوں میں درد، غنودگی۔قے اور خارش شامل ہیں۔ہم سب پر لازم ہے کہ ڈینگی کے جن کو بے قابو نہ ہونے دیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔