کراچی،اسلام آباد(کامرس رپورٹر،92 نیوز رپورٹ)کاروباری ہفتے کے چوتھے روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں 3 روپے 40 پیسے کا اضافہ ہوگیا جس کے بعد انٹر بینک میںڈالر 161 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 165 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ڈالر کی بڑھتی قیمت اور ذخیرہ اندوزی کا نوٹس لے لیا،انکی ہدایت پر سٹیٹ بینک نے انکوائری شروع کر دی ۔کرنسی ڈیلرز کے مطابق کاوربار بند ہونے کی وجہ سے اوپن مارکیٹ بند ہونے سے قیمت جاری نہیں ہوسکی۔گزشتہ روز بھی ڈالر کی قیمت میں3 روپے کا اضافہ ہوا تھا۔گزشتہ سال اگست میں انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 164 روپے 5 پیسے تھی جو اب تک کی بلند ترین سطح تھی۔گزشتہ سال کے آغاز میں ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی، جنوری میں ڈالر 138 روپے 93 پیسے ، فروری میں 138 روپے 90 پیسے اور مارچ میں 139 روپے 10 پیسے تک پہنچ گیا ۔بدھ کو ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافہ کے باعث جمعرات کو بھی انٹربینک میں امریکی ڈالرکے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی بے قدری کا تسلسل جاری رہا اور انٹربینک میں ایک موقع پرڈالر کی قیمت میں چار روپے 50 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیاگیا جس کے بعد یہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔جمعرات کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر مزید ساڑھے 5.85 روپے مہنگا ہوکر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ فاریکس ڈیلرز کے مطابق انٹربینک میں ڈالر 5 روپے 85 پیسے مہنگا ہوکر 167.45 روپے پر پہنچ گیاتھا۔ ڈالر9 ماہ بعد اتنی مہنگی سطح پر ٹریڈ ہوا جبکہ انٹر بینک میں امریکی کرنسی کی قدر میں 3 روز کے دوران 8 روپے 45 پیسے کا اضافہ ہوچکا ہے ۔جمعرات کو کاروبار ختم ہونے پر 3 روپے 40 پیسے کا اضافے سے 165 روپے پر بند ہوا۔ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافہ کے باعث ملک پر قرضوں کے بوجھ میں 600 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے گھریلو قرضوں اور سٹاک مارکیٹوں سے قلیل مدتی سرمایہ کاری نکالنے سے روپے کی قدر میں گراوٹ آئی ۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کے باعث سرمایہ کار پاکستان سے اپنا پیسہ نکال رہے ہیں جو ڈالر مہنگا ہونے کا سبب ہے ۔ کرونا کے باعث غیرملکی سرمایہ کار نقد رقم کو ہاتھ میں رکھنے کیلئے دنیا بھر سے اپنی سرمایہ کاری نکال رہے ہیں۔عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے بتایاکہاسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ، پچھلے تین ہفتوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حکومتی قرضوں کی سکیورٹیز سے 1.56 بلین ڈالر کی قلیل مدتی سرمایہ کاری واپس لے لی ہے جس کے نتیجے میں روپیہ پر دباؤ بڑھ گیا، تاہم گھبراہٹ میں مبتلا کچھ سرمایہ کاروں نے پختگی ہونے سے پہلے سیکیورٹیز فروخت کردیں۔ذرائع کے مطابق ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے کرنسی مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس آج متوقع ہے ۔ سٹیٹ بینک کی انکوائری کی بنیاد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی بڑھتی قیمت ہو گی جبکہ اس پر ذخیرہ اندوزوں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کرونا کے پیش نظر بیرون ملک سے ادویات اور مشینری ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگی ہو گئی۔