میری عمر صرف پینتالیس سال تھی جب آج سے انیس سال قبل جدید دنیا کا ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے زمین پر بسنے والے مسلمانوں کے خون کی ارزانی کے خونچکاں دور کا آغاز کر دیا اور آج بھی اس کرۂ ارض کا رنگ مسلمانوں کے خون سے رنگین اور فضا مظلوم اور معصوم مسلمانوں کی چیخوں، سسکیوں اور آہوں سے مسلسل غمناک ہے۔ یہ کیفیت صرف دیکھنے اور محسوس کرنیوالوں کو ہی نظر آتی ہے، بقول میر تقی میر’’چشم ہو توآئینہ خانہ ہے دہر‘‘۔ شام کے دھندلکے میں پاکستان کی ٹیلی ویژن سکرینوں پر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے طیارہ ٹکرائے جانے کا منظر دکھایا جا رہا تھا۔ دنیا حیرت میں گم ان تمام مناظر کو کئی گھنٹوں ایسے دیکھتی رہی، جیسے کسی ہالی ووڈ کی فلم کے مناظر دکھائے جا رہے ہوں۔ یہ دھواں اور چیخ و پکار صرف چند گھنٹے جاری رہا، جس میں 2970 امریکی جان سے گئے، لیکن ان تین ہزار امریکیوں کی موت کا انتقام آج تک پوری مسلم دنیا سے لیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے پڑوس میں افغان سرزمین نے ابھی صرف چند برسوں سے ہی ایک طویل خونریزی کے بعد ملا محمد عمرؒ کی قیادت میں امن کا سفر شروع کیا تھا۔ 11نومبر1994ء کو پچاس طالبان کے جس قافلے نے چمن کے سرحدی افغان قصبے ’’سپن بولاک‘‘ میں ،اپنی فتح سے جس امن کے سفر کا آغاز کیا تھا، وہ صرف دو سال بعد 27ستمبر1996ء کو کابل کی فتح کے ساتھ ایک مستحکم، پرامن اور انصاف کے امین افغانستان کی صورت دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا تھا۔ افغانستان میں امن کی بدولت، بلوچستان کے علاقوں میں بھی امن و عافیت اور سکون و اطمینان 1994ء سے ہی لوٹ آیا تھا۔ اسلئے کہ قندہار، ہلمند، نیمروز، زابل، اورزگان، غزنی اور پکتیا کے صوبے جو بلوچستان کی سرحد سے ملحق تھے، وہاں کے عوام نے 1994ء میں ہی والہانہ طور پر طالبان دستوں ایسے خوش آمدید کہا تھا کہ بغیر قطرۂ خون بہائے، ان صوبوں پر ’’اماراتِ اسلامی‘‘ کا پرچم لہرانے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملے کے وقت بلوچستان، طالبان کے پر امن پڑوس کے ثمرات کی وجہ ایک پرامن خطہ تھا۔ بلوچستان میں ان چھ برسوںکے جرائم کی فہرست نکال کر دیکھ لیں، آپ کو بم دھماکے ملیں گے اور نہ ہی اغوا برائے تاوان کے جرائم، کہیں گاڑی چوری یا ڈکیتی کے مقدمے بھی نظر نہیں آئیں گے ۔ وجہ صرف ایک تھی کہ اب کوئی پاکستان سے گاڑی چوری کر کے، قتل کے بعد یا کسی کو اغواکر کے ، افغانستان کی ’’جنت‘‘ میں پناہ حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ میں چاغی کا ڈپٹی کمشنر تھا، جس کی افغانستان کے ساتھ تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ طالبان دور حکومت میں اس ضلع کے بیچوں بیچ گذرتی ہوئی ، آر سی ڈی ہائی وے پر لوگ بلا خوف سفر کرتے تھے۔ میں خود بغیر کسی گن مین یا گارڈ، اکیلا تفتان سے نوشکی رات گئے سفر کر لیتا تھا۔ یہ وہی علاقہ تھاجہاں طالبان سے پہلے ’’سیندک‘‘ پر کام کرنے والے چینی انجینئر اغوا ہوئے تھے اور کوئی غیر ملکی تو ایک طرف پاکستانی افسران بھی بغیر گارڈ سفر نہیں کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر پچاس سالوں تک متنازعہ’’ ڈیورنڈ لائن‘‘ پر’’ سروے آف پاکستان‘‘ کی ٹیم نہیں جا سکی تھی۔ ملا محمد عمرؒ کے دور میں 1998ء میں اس سرحد کا باقاعدہ سروے ہوا اور برجیاں لگائی گئیں۔ بلوچستان کے تمام سرحدی اضلاع یہاں تک کہ کوئٹہ شہرکے علاقوں،پشتون آباد، خروٹ آباد، غیرگ اور چشمہ اچوزئی سے بھی اکثر لوگ اپنے مقدمے پر درست فیصلوںکے حصول کے لئے پاکستان کی عدالتوں کی بجائے، افغانستان میں طالبان کی عدالتوں سے رجوع کرتے تھے۔ خطے میں امن و امان اور انصاف و آشتی کے یہ چھ سال ابھی مکمل ہی ہوئے تھے کہ 11ستمبر 2001ء کا واقعہ رونما ہوگیا، جس نے اس پورے خطے کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ اس واقعے کے بعد اس علاقے میں صرف دو طاقتیں رہ گئیں، ایک طالبان کے حامی اور دوسرے طالبان کے مخالف۔ پورا خطہ دو خیموں میں ویسے ہی بٹ گیا، جیسے پوری دنیا دو حصوں میںتقسیم ہو گئی۔ ایک امریکہ کے حامی اور دوسرے امریکہ کہ مخالف۔اللہ کی بتائی گئی تقسیم بغیر کسی منافقت کے دنیا کے سامنے آگئی۔ کیا واضح تقسیم ہے فرمایا، ’’یَکفِر بالطاغوت‘‘ (طاغوت کے منکر) یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے اور ’’اَوْلَیٰھُمُ الطّٰاغُوت‘‘ (طاغوت کے دوست) یعنی طاغوت پر بھروسہ کرنے والے۔ حیرت سے غور کریں کہ گیارہ ستمبر کے بعدپوری دنیا ایک مکمل گروہ بن گئی تھی، جو امریکی طاغوت اور اس کے اتحادیوں کی ٹیکنالوجی کے دیوتا کے سامنے یکدم سجدہ ریز ہوگئی۔ سجدہ ریز ہونے والوں میں افغانستان کے قوم پرست جمہوریت پسنداور سیکولرنما اقلیت کے ساتھ ساتھ تمام پڑوسی ممالک، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور پاکستان شامل تھے۔ اس دور کاکوئی حکمران بلکہ بحیثیت مجموعی کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو روز حشر اللہ کے سامنے یہ دعویٰ نہ کر سکتی ہو کہ جب آسٹریلیا سے لے کر ہوائی تک پوری دنیا پچاس ہزار طالبان کی حکومت کو نیست و نابود کرنے کے لئے افغانستان پر چڑھ دوڑی تھی، تو اسوقت ہم نہتے، کمزور اور بے وسیلہ طالبان کے ساتھ کھڑے تھے۔ پاکستان پر مشرف برسراقتدار تھا ۔ ہر کسی کو آخرت میں اپنے اعمال کاجواب دینا ہے اور مشرف کا اعمال نامہ بھی کھلے گا لیکن اگر روز حشر صرف امریکی سینٹ میں مارچ 2004ء میں پیش ہونے والی امریکہ پاکستان تعلقات کی رپورٹ ہی کھل گئی تو بڑے بڑے لوگ منہ دکھانے کے قابل نہیںرہیں گے۔ پانچ سو سے زیادہ مسلمانوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا جو ’’گوانتانا موبے‘‘ کے اذیت خانوں میں رہے، جن میں سے ننانوے فیصد بے گناہ ثابت ہوئے، ستاون ہزار دفعہ پاکستانی ہوائی اڈوں سے امریکی جہاز اڑے اور افغان مسلمانوں پر بم برساتے ہوئے واپس لوٹے۔ اس زمانے میں فتح و نصرت کے غرور میں ڈوبے ہوئے امریکی نواز ٹیکنالوجی پرست پاکستانی حکمران، دانشور اور میڈیا کے جغادری ایک واقعے کی بار بارمثال دیتے ہوئے کہتے تھے کہ دیکھو امریکہ جب کسی کو تباہ کرنے پر آتا ہے تو اس کا ’’تورابورا‘‘ بنا دیتا ہے۔ مشرف کے دسترخوان پر بیٹھنے والے اس کے ’’نمک حلال‘‘ وزراء پورے پاکستان کو یہی سبق سکھا رہے تھے کہ اگر مشرف امریکہ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوتا تو ہمارا تورابورا بنا دیا جاتا۔ آج کے مقبول اور ریٹنگ حاصل کرنے والے شیخ رشید اس منطق کو دہراتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ لیکن آج ٹھیک انیس سال گذرنے کے بعد دیکھیں تو اللہ نے اپنے ان بندوں سے کیا گیا وعدہ پورا کر دکھایا ہے۔ طالبان جنہوں نے دنیا کی مادی قوتوں اور ٹیکنالوجی کے خدائوں کا انکار کر کے صرف اس مالک کائنات پر بھروسہ کیا تھا، وہ آج پوری دنیا کے عالمی اتحاد کو شکست دے کر سرخرو ہو چکے ہیں۔ ایسا معجزہ تو انسانی تاریخ میں کبھی ہوا نہیں کہ پوری دنیا، آٹھ ایٹمی طاقتیں، فوجی سازوسامان کے ذخیرہ اندوز اور دنیا بھر کی ٹیکنالوجی کے خالق، سب کے سب بحیثیت مجموعی اکٹھے ہوں اور پھر میرا اللہ ان سب پر پچاس ہزار طالبان کو فتح سے ہمکنار کردے۔ بے شک وہ اس کائنات کا واحد مالک و مختار ہے۔گیارہ ستمبر نے ہر شخص کی زندگی پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور میں بھی اس واقعے کو اپنے لئے خیر کا ایک بہت سے بڑا ذریعہ تصور کرتا ہوں۔ پنتالیس سال کا ادھیڑ عمر کا ایک شخص جو شاعر اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھا اور بیوروکریٹ ہونے کے ناطے اس کی نوکری کے ابھی شاندار پندرہ سال باقی تھے۔لیکن گیارہ ستمبر کے واقعے نے میری دنیا ہی بدل دی۔ میں پوری دنیا کے اتحاد کے مقابلے میں پچاس ہزار طالبان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ وہ قلم جو شاعری اور ڈرامہ نگاری کرتا تھا، اس نے ان کے دفاع کا راستہ اپنا لیا۔ اس راستے میں جو گزری وہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن نہ اس دوران شوبز کی رنگارنگ دنیا چھوڑنے کا افسوس دل میں آیا اور نہ ہی اگلے پندرہ سال کی نوکری میں کسی اعلیٰ پوسٹنگ کا لالچ پائوں کو ڈگمگا سکا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے، اللہ نے جس طرح ان پچاس ہزار طالبان کو نصرت بخشی، میری بھی ایسے ہی پاسبانی کی اور باقی ماندہ پندرہ سالہ نوکری کے ہر مرحلے پر میری بھی حفاظت کی، کوئی ریٹائرمنٹ تک میرا بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ یوں لگتا ہے، مجھے ایک مثال بنا دیا کہ اگر کوئی ملازم پیشہ بھی حق کا ساتھ دینے کھڑا ہو جائے تو اللہ اس کی نگہبانی کرتا ہے، اس پر بھی باطل کو غالب نہیں ہونے دیتا۔