ہم نے عمران خان کے گیارہ نکات سے بہت پہلے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھانے شروع کر دئیے تھے۔ ہمیں خوشی ہے کہ عمران خان نے یکساں نصاب اور سیاحت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔ ہمارے ملک میں سیاحت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس طرح انڈیا میں ہوئی ہے۔ نہ ہمارے سفارتکاروں نے پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے دوسرے ممالک میں تقریبات اور تعلیمات عام کی ہیں۔ اسلئے کہ سفیرانِ کرام بھی اقرباء پروری کے تحت مقرر کئے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں سے باہر جن کو نوازنا چاہا‘ سفیر بنا دیا۔ چاہے اس کو ڈپلومیسی کی ’’الف ب‘‘ بھی نہ آتی ہو۔ اپنی سیاسی زندگی میں دوسرے ممالک کے اندر ہمیں ایسے بہت نالائق اور نااہل سفیروں سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل رہا۔ جو فقط ہزایکسی لینسی کے نشے میں ہی بدست رہتے تھے۔ پاکستان کے اندر ماشاء اللہ‘ پہاڑ‘ وادیاں‘ سمندر‘ دریا‘ جھیلیں‘ جھرنے‘ صحرا‘ قدرتی مناظر چارموسموں کے غلاف اوڑھے کھڑے ہیں۔ ایک کوہ مری پر سارا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ خیرا گلی سے لے کر نتھیا گلی تک بے شمار پہاڑ ہیں۔ انہیں ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم سڑکوں کو جدید کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست دیر‘ سوات‘ ناران‘ دریائے کنہار سے آگے تک اگر مزید موٹل بن جائیں‘ سڑکیں چوڑی ہو جائیں‘ پانی کا بندوبست ہو تو پاکستانیوں کو کہیں باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ’’سیاحت‘‘ ایک بہت کارآمد اور زرمبادلہ کمانے والا محکمہ ہے۔ وہ صوبوں میں گیا تو کہیں اسکی شناخت نظر نہیں آئی۔ عمران خان نے اپنے ایجنڈے میں دو نہایت اہم نکات پر مفصل بات نہیں کی۔ ایک تو زراعت کا محکمہ اور دوسری بہود آبادی یا فیملی پلاننگ..... جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو گندم اور دوسری اجناس میں خود کفیل تھا حتیٰ کہ امریکہ اور انڈیا کو گندم ایکسپورٹ کرتا تھا۔ آج دانے دانے کا محتاج ہوا یعنی مقروض ہوا۔ ایوب خان کے زمانے کو لاکھ بُرا کہہ لیں مگر زراعت نے صرف اسی کے زمانے میں ترقی کی۔ اگرچہ پانیوں کے فیصلے غلط ہو گئے۔ اگر اس فقیدالمثال جلسے کے موقعے پر عمران خان کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کر دیتے۔ تو کم ازکم انہیں موجود لیڈروں میں سب سے بڑا تسلیم کر لیا جاتا۔ آگے چل کے یہ ان کا امتحان ہو گا۔ اور یہ بھی اعلان کرنا چاہیے تھا کہ وہ کسانوں اور ہاریوں کو کس قسم کی مراعات دیں گے۔ وہ زمینیں جو سیم اور تھور کی وجہ سے سفید زہر اُگل رہی ہیں اُن کا علاج کون کرے گا۔ کسانوں کو جدید مشینری مہیا کون کرے گا۔ کسانوں کو سستے داموں بجلی کون مہیا کرے گا۔ کون انہیں سستے قرضے دے گا؟ کون ان کے اجناس کو صحیح داموں میں اُٹھائے گا۔ آج کسان کی حالت قابلِ رحم ہے۔ ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جائیںگی تو منڈیاں اجناس سے بھری نظر آئیں گی۔ یہ عمل کتنا شرمناک ہے کہ ہم آلو‘ ٹماٹر‘ کیلے‘ سیب اور دیگر سبزیاں وفروٹ انڈیا سے ایکسپورٹ کریں۔ یہ پردہ بھی ایک دن اُٹھ جائے گا کہ کون کون سیاسی سوداگر اس شرمناک کام میں ملوث ہوتے ہیں۔ دبئی نے پاکستانیوں کی مدد سے اپنے ملک کو سرسبز کر لیا ۔ سعودی عرب ہمارے لوگوں نے سرسبز کر دیا۔ مگر پاکستان کے اندر ان کے کھیت اور کھلیان ویران پڑے ہیں۔ کیوں؟ ان کی مسیحائی کو کیا فرشتے اُتریں گے؟ اگر کسانوں کو جدید سہولتیں دی جائیں تو پاکستان گندم میں خودکفیل ہو سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے فیملی پلاننگ یا بہود آبادی___ بلکہ اب تو کہنا چاہیے کہ بربادیٔ آبادی کے محکمے صوبے کو بخشے گئے۔ کیڑے مکوڑوں کی طرح آبادی بڑھ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں اس کے ثمرات نہیں پہنچ رہے۔ پنجاب میں ایک غیر شادی شدہ خاتون کو فیملی پلاننگ کا وزیر بنا دیا گیا۔ علم اور تجربہ ایک ساتھ چلتا ہے۔ دفاتر ہیں۔ عملہ تنخواہیں چاٹ رہا ہے۔ مگر غریبوں کو ان دفاتر سے دھتکارا جاتا ہے۔ یہ بندوں کا سمندر کہاں جا کر رُکے گا___؟ اس کے لئے ان کے گھروں تک‘ ان کے وسائل تک‘ ان کے مسائل تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ بڑے شہروں میں بیٹھ کر‘ فائیوسٹار ہوٹلوں کے اندر بہودآبادی کا ایک سیمینار کروا لینے سے‘ اور بڑے بڑے لوگوں سے فیشن ایبل تقریریں کروا لینے سے یہ بربادی نہیں رُکے گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ زیادہ بچے وہ طبقہ پیدا کر رہا ہے۔ جس کے پاس کھانے کو‘ پہننے اوڑھنے کو اور رہائش کے لئے سہولتیں نہیں ہیں۔ دس بارہ بیمار بچے پیدا کرنے کی بجائے دوچار صحت مند بچے ہر گھر کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اب فیملی پلاننگ کا کوئی اشتہار بھی نہیں چلتا۔ اس محکمے میں بہت کام ہونے والا ہے۔ ابھی ابھی مردم شماری ہوئی ہے وہ بھی متنازعہ بن گئی ہے۔ جب سیاست دان برسراقتدار آتے ہیں۔ تو ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں___ یہ جو گیارہ نکات عمران خان نے ایجنڈے کے طور پر دئیے ہیں۔ ان پر کیا پانچ سال کے اندر عمل درآمد ہو سکے گا۔ انتخابات سے پہلے انہیں ان پر مستقل کام کرنے اور کروانے کے لئے تھنک ٹینک بنانے چاہئیں۔ پاکستان میں بہت جوہر قابل ہے۔ ایک تجربہ کارنسل ریٹائرڈ ہو کر گھر بیٹھی ہے۔ یکساں نصاب کے سلسلے میں ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ تھنک ٹینک میں چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم اور دانشور بٹھائے جا سکتے ہیں۔ سکتے..... سکتے کرتے ہم تو سکتے میں آ چکے ہیں___ اب چھوڑئیے باقی ترامیم کو ذرا ثقافت کی طرف آ جائیے___ ایک ’’نک چڑھا طبقہ ‘‘ہے ہمارے ہاں جو پوچھا کرتا ہے۔ پاکستان کا کلچر ہے کیا؟ پاکستان کی ثقافت کہاں ہے۔ وہ طبقہ سن لے۔ ہر گھر کی ماں اسکی ثقافت ہوتی ہے۔ ماں جو زبان بولتی ہے وہ مادری زبان بن جاتی ہے۔ ماں جو لباس پہنتی ہے وہ بیٹی کا لباس بن جاتا ہے۔ باپ جو لباس پہنتا ہے وہ بیٹے کا لباس بن جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی مرضی کا ہر لباس پہننے کی آزادی ہوتی ہے۔ ماں کا پکایا ہوا کھانا‘ گھر کے اندر ماں کے آداب رسم ورواج خاندان سے ملنا جلنا‘ شادی بیاہ کے آداب سب رفتہ رفتہ ثقافت بنتے جاتے ہیں۔ ثقافت کی اساس ماں ہے۔ زبان کے بعد لباس ثقافت بن جاتا ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے کے لباس پر نظر ڈال کے دیکھ لیجئے۔ آپ جس کو لوک ورثہ کہہ رہے ہیں وہی تو ثقافت ہے۔ جو بڑے شہروں تک پہنچتے پہنچتے بدل سی جاتی ہے۔ جب شہریوں کو ضرورت پڑتی ہے تو تہذیب کو لوک ورثہ بنا لیتے ہیں۔ وہی ملبوسات‘ وہی گیت‘ وہی رقص‘ وہی بولیاں لوک ورثہ کے نام پر کمائی کا ذریعہ بننے لگ جاتی ہیں۔ بھئی یہ لوک ورثہ آیا کہاں سے‘ آپ قدیم ترین تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔ مسلم ممالک میں بھی شادی بیاہ پر ڈھول بجانا‘ رقص کرنا‘ مہندی لگانا‘ لڈی‘ بھنگڑا‘ دھمال‘ سمی سازوآواز ثقافت کا حصہ تھے۔ یہ صوفی ازم کیا ہے۔ آپکی ثقافت کا اثاثہ آج جس گائیک کو صوفی ازم کا مطلب بھی نہیں آتا وہ اپنے آپ کو صوفی گائیک کہلاتا پھرتا ہے۔ صدیوں پہلے کا لکھا ہوا کلام آج کی ضرورت کیوں بن گیا۔ یہ ہمارا کلچر ہے جس نے برصغیر میں جنم لیا۔ یہ جو فیشن شو آج کل آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ یہ اچکن‘ شیروانی‘ انگرکھا‘ فرشی غرارا‘ لہنگا‘ چست پاجامہ کُرتا اور دوپٹہ یہ آپ کا کلچر ہے۔ آپ اسکی تراش خراش بدل بدل کے پیسے تو کما رہے ہیں۔ ان ملبوسات کو ثقافت کا حصہ نہیں سمجھ رہے۔ دوپٹہ آپ کا کلچر ہے مگر آپ نے لڑکیوں کے سر سے دوپٹہ اُڑا دیا ہے۔ ان کی زلفیں گلے میں لپیٹ دی ہیں۔ اور کلچر پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ مسلمان عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ ننگے سر حج اور عمرہ نہیں کر سکتی۔ ننگے سر قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ سر ڈھک کے عبادات کرنا اس کا کلچر ہے۔ آپ نے دوپٹے کی نفی کر دی۔ تو کونسے کلچر کی ترویج کر رہے ہیں۔ فلمیں پہلے بھی بنتی تھیں۔ ان میں گیت ورقص‘ کوٹھا‘ شراب نوشی اچھے بُرے کرداروں میں ڈھال کے دکھایا جاتا تھا۔ بلکہ ہمارے بچپن میں جو فلمیں بنتی تھیں اُن میں طوائف بھی سر پر دوپٹہ ٹکا کر رقص کرتی تھی۔ آج کی فلموں کا ان سے موازنہ کر لیجئے۔ زبان‘ لباس‘ آداب‘ کھانا پینا‘ رسم ورواج سب ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں۔ مہمان نوازی‘ میزبانی‘ اعلیٰ اخلاق‘ صفائی ستھرائی کی عادت‘ بڑوں کا ادب‘ غریبوں کی مدد‘ تعلیم دلوانا‘ ایک دوسرے کا خیال رکھنا‘ تحمل‘ برداشت رواداری‘ بڑھ کے سلام کرنا‘ کتابیں لکھنا‘ ناول افسانہ شاعری مصوری خطاطی موسیقی اور تمام اصناف فنونِ لطیفہ آپ کا کلچر ہے۔ کلچر مستعار نہیں لیا جاتا‘ کلچر گھروں کے اندر جنم لے کر معاشرے میں پروان چڑھتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ یورپ او رامریکہ جیسے ملکوں میں ان کی شادیوں کی تقریبات گرجا میں ہوتی ہیں۔ اور دولہن نے سفید براق لباس پہنا ہوتا ہے۔ سر سے لے کر پاؤں تک ملفوف اور ملبوس ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اس دن اس نے ایک لمبے دوپٹے سے سر ڈھکا ہوتا ہے۔ جسے Cape کہتے ہیں۔ جو اس کے پیچھے چند سہیلیوں نے اٹھائی ہوتی ہے۔ سر ڈھکنا ان کے لباس کا حصہ نہیں ہے مگر شادی کے روز وہ سفید پاکیزہ لباس پہن کے سر سے پاؤں تک محجوب ہو کر اس مقدس بندھن میں ایک وقار اور حیاء پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں کلچر سے بیزار دولہنیں شادی کے روز انڈین فلموں کا لباس ننگے بازو والی ادھ کھلی چولیاں پہننے لگی ہیں۔ گھونگھٹ تو ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔ شادی والے دن بھی اُٹھ کر ناچنے لگتی ہیں۔ یہ کہاں کا کلچر ہے.....اعلیٰ تعلیم کا یہ مقصد نہیں کہ آپ اپنی زبان اپنے لباس اور اپنے ادب آداب سے منحرف ہو جائیں___ ان سب باتوں کا جائزہ لینا ‘ وزارتِ ثقافت کا کام ہوتا ہے۔ وہ دُوردراز علاقوں سے جو ہر قابل تلاش کر کے بڑے شہروں میں لاتی ہے___ متعارف کراتی ہے۔ موسیقی تو وہی ہے مگر جدید سازوں میں ڈھل جاتی ہے..... علیٰ ھذاالقیاس۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ جن کالم نگاروں‘ اینکروں اور سیکرٹریوں نے انتخابات کے دوران خوشامد کے طومار باندھے ہوتے ہیں۔ صلے کے طور پر انہیں ثقافت‘ سیاحت یا دوسرے محکموں میں مشیر وزیر لگا دیا جاتا ہے۔ جب ان فُقروں کو کرسی ملتی ہے تو وہ بادشاہ سلامت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھ کے ثقافتی میلوں اور ادبی ٹھیلوں میں ان سارے بڑے بڑے ادیبوں کو نظر انداز کر کے بادشاہ کے حامی چمچوں اور کڑچھوں کو مدعو کر کے کروڑوں کماتے ہیں۔ مزید کالم لکھوانے لگتے ہیں۔ کیا ہوتا رہا ہے لاہور آرٹس کونسل میں اور اسلام آباد بک فاؤنڈیشن میں اور بس..... بس بشریٰ رحمن..... بس___ دڑ وٹ چپ کر جا نہ شور کریں اک ماسا چمڑی لتھ جاؤ گی ایس عشق دا ہو جاؤ ہاسا! تمت بالخیر