ضلع کچہری راولپنڈی کے مین گیٹ کے عین سامنے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا، جو دو دہائیاں پہلے بیشمار واقعات اور داستانوں کا امین بنا جب بینظیر بھٹو کے آخری دور حکومت میں مجھے لاہور بدر ہونا پڑا تھا، لاہور سے راولپنڈی تبادلہ کیوں کرایا؟ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جس سے پھر کبھی پردہ اٹھاؤں گا،میرے وہاں جانے سے پہلے جواد نظیر بھی پنڈی پہنچا ہوا تھا، اس کی بھی خواہش تھی کہ میں وہاں آجاؤں، جواد نے کشمیر ہاؤس میں ٹھکانہ بنا رکھا تھا، مگر میں نے رہائش کے لئے اس گیسٹ ہاؤس کا انتخاب اس لئے کیا کہ وہ دفتر کے بہت قریب تھا، اخبار کی کاپی پریس چلے جانے کے بعد ہر روز رات گئے دوستوں کی محفلیں سجنا شروع ہو گئیں، لاہور کے دوستوں کو پتہ چلا تو ان کا آنا جانا بھی شروع ہو گیااور وہ گیسٹ ہاؤس لاہوری گیسٹ ہاؤس کے نام سے مشہور ہوگیا روزانہ کوئی نہ کوئی نیا ہنگامہ، کوئی نئی کہانی، یوں تو وہاں بے شمار دوست یہاں آیا کرتے تھے، لیکن بیرسٹر سلطان محمود ، شمیم احمد خان، اعجازشیخ ،چوہدری سرور(گورنر صاحب نہیں) اور مسعود باری کا آنا جانا زیادہ تھا، جواد نظیر بھی تھک ہار کر وہیں سو جاتا، اس کے ساتھ سمیع ابراہیم ہوتا، گیسٹ ہاؤس کا کچن ضرورت کی ہر شے سے لیس رہتا، کس نے کیا کھانا ہے , کیا پینا ہے ؟ یہ مہمانوں کی اپنی صوابدید پر ہوتا تھا، خانسامہ تو موجود تھا لیکن بہت سارے دوست خود بھی ککنگ کا شوق پورا کیاکرتے تھے ، ہفتے کی رات تو دوستوں کا بہت ہجوم رہتا، ارشاد راؤ جیسے دوست بھی چلے آتے۔حفیظ احمد مرحوم ہماری مجلس کا مزہ لینے لاہور سے وہاں پہنچتے ، ہفتے ہی کی ایک رات گیسٹ ہاؤس کے ایک وسیع و عریض کمرے میں بہت سارے دوست جمع تھے، کچھ گفتگو میں محو ، کچھ باہمی لڑائی جھگڑے میں، کئی لطیفہ بازی میں اور کئی کھانے پینے میں، اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور خلاف توقع اداکارہ مسرت شاہین اندر داخل ہوئیں، وہ اس سے پہلے بھی کبھی کبھار آجایا کرتی تھیں ،انہوں نے مساوات پارٹی کے نام سے نئی نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور وہ وہاں موجود دوستوں سے سیاسی حالات پر تبادلہ خیالات فرمایا کرتی تھیں( میں جانتا ہوں کہ میری اس بات پر اعتبار کوئی نہیں کرے گا)، ان کے ہمراہ پندرہ سولہ برس کا ایک لڑکا بھی آیا، جس کانام تھا ریمبو (صاحبہ والا ریمبو نہیں ) مسرت شاہین نے اس لڑکے کا تعارف اپنے سیکرٹری کے طور پر کرایا۔.انہیں بیٹھنے کیلئے کرسی پیش کی گئی ،وہ چوہدری سرور کے پہلو میں بیٹھ گئیں ، موصوفہ نے چوہدری صاحب اور مسعود باری سے گفتگو شروع کر دی ، حالات حاضرہ پر بات چیت کے دوران چوہدری صاحب کو اچانک پتہ نہیں کیا ہوا ، وہ مسرت شاہین کے سامنے دوزانوں ہوئے اور اداکارہ کے قدموں میں بیٹھ گئے، سب حیرت زدہ ہوئے، سوائے مسرت شاہین کے، پھر ایک اور دھماکہ خیز حرکت کی چوہدری صاحب نے، انہوں نے مسرت شاہین کے پاؤں پکڑ لئے، یہ منظر اس حوالے سے بھی حیرت انگیز تھا کہ چوہدری صاحب ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ تھے، مسرت شاہین کے چہرے پر شرارت انگیز مسکراہٹ تھی، چوہدری صاحب کی یہ حرکت مسرت شاہین کے لئے ممکن ہے کہ عجیب نہ ہو ، کیونکہ اس زمانے میں ان کے ہزاروں دیوانے تھے، یہ وہ دور تھا جب مسرت شاہین کو چاہنے والے اسے دیکھ کر راستہ بھول جایا کرتے تھے،چوہدری صاحب کا مسرت شاہین کے پاؤں پکڑے رہنے کا عمل کئی منٹ جاری رہا، اسی دوران وہ اچانک کرسی سے اٹھیں اورچوہدری صاحب سے مخاطب ہوئیں، چوہدری صاحب ، میں تو جا رہی ہوں کئی جگہ پارٹی کی میٹنگز رکھی ہوئی ہیں،،لیکن ریمبو یہیں ہے،مسر ت شاہین کے تیزی سے کمرے سے باہر نکلتے ہی ایک زور دار مشترکہ قہقہہ لگا جو دیر تک گونجتا رہا۔ ٭٭٭٭٭ چالیس سال سے دوستی ہے اس سے، شروع شروع میں تو میں اسے جیدہ کہا کرتا تھا لیکن جب اسے اللہ نے عزت دی تو میں نے اسے جاوید اور جاوید صاحب کہنا شروع کر دیا، حالانکہ ہمارا بچپن کا دوست نثار عباس اسے اس وقت بھی جیدہ کہتا تھا اور ابتک اسے اسی نام سے یاد کرتا ہے، میں اسے ٹوکوں تو اس کی ہنسی نکل جاتی ہے اور پھر یہ ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔۔۔۔۔اب تو وہ کئی اردو،پنجابی فلمیں ڈائریکٹ کر چکا ہے،آجکل بھی کسی نئی فلم کی تیاریاں کر رہا ہے، ایک اردو فلم کی ہیروئن تو نے انڈیا سے بھی لی ،دو فلمیں دوسرے ملک کے اشتراک سے بنائیں، جب وہ میرانیا نیا دوست بنا تھا تو ایک دن مجھے مزنگ چونگی سے کوئینز روڈ کی جانب جاتے ہوئے راستے میں جو پہاڑی ہے وہاں لے گیا(اب یہ پہاڑی گرلز کالج کا حصہ بن چکی ہے)، اس کے پاس گھریلو استعمال کا ایک چھوٹا سا سٹل کیمرہ تھا، اس نے کیمرہ میرے حوالے کرتے ہوئے درخواست کی کہ میں اس کی تصویریں بناؤں، وہ پوز بناتا رہا میں کیمرہ چلاتا رہا، تصویریں دھلوائی گئیں تو دوچار اچھی بھی نکل آئیں ، بڑی تگ و دو کے بعد ایک تصویر کسی فلمی رسالے میں چھپ گئی وہ ایکٹر بننا چاہتا تھا، اس خواب کی تکمیل کیلئے وہ ہر وہ کام کر جاتا جسے وہ فلموں میں ہیروز کو کرتے دیکھا کرتا تھا، ایک فلم میں اس نے ہیرو کو کسی کالج کے باہر ہیروئن کا انتظار کرتے ہوئے دیکھ لیا،جس کے بعد اس نے سمن آباد کالج کے باہر کھڑا ہونا شروع کر دیا، جب کوئی چوکیدار یا پولیس اہلکار اس سے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ دریافت کرتا تو وہ جھٹ سے کہہ دیتا،،،باجی کو لینے آیا ہوں،،،،،اس کے لڑکپن کے ابتدائی دن اسی دشت کی سیاحی میں گزرے ، وہ کبھی اپنے کسی کئے پر شرمندہ نہیں ہوتا تھا، پھر اس نے فلم اسٹوڈیوز جانا شروع کر دیا، وہ کسی سے بھی واقفیت گانٹھ لینے کا ہنر بھی خوب جانتا تھا، اسٹوڈیوز کے گیٹ کیپر بھی اس کی مٹھی میں آ گئے تھے،اسے کسی بھی اسٹوڈیو میں آنے جانے سے کوئی نہیں روکتا تھا،اداکاری کا موقع نہ ملا تو وہ رنگیلے کا اسسٹنٹ بن گیا، رنگیلے کی شاگردی نے تو اس کی قسمت ہی کھول دی ، وہ رنگیلے کا اس قدر چہیتا بن چکا تھا کہ اس سے بڑے بڑے فیصلے بھی تبدیل کرا لیتا تھا،،، رنگیلے کی ایک فلم ،،دل اور دنیا،، کی ہیروئن دیبا بیگم تھیں، پھر جیدے نے خود ڈائریکٹر بننے کی جدوجہد شروع کر دی، کچھ سال بعد ہی جیدے نے اپنا پروڈکشن آفس بھی بنا لیا،جیدے کو داد ملنی چاہئیے کہ وہ آج کل کے نامساعد حالات میں بھی نہ صرف انڈسٹری سے وابستہ ہے بلکہ عروج کے زمانے کی واپسی کے لئے پر امید بھی، وہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے ریوائول کے لئے روشنی کی کرن ہے۔