سردی بڑھنے سے ملک بھر میں گیس بحران بھی بڑھ گیا‘ صنعتوں کو گیس سپلائی بند کر دی گئی‘ گیس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ بند‘ سی این جی ایسوسی ایشنز کا احتجاج‘ وزیر اعظم عمران خان نے 72گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ گیس کا بحران ملک بھر میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ جس کے باعث صنعتیں بند اور غریب آدمی کاچولہا ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ گو وزیر اعظم عمران خان نے گیس بحران پر فی الفور ایکشن لے کر ذمہ داروں کے تعین کے لئے 4رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر موسم سرما میں ہمارے ہاں ہی گیس کا بحران کیوں پیدا ہوتا ہے؟ سابق حکومت نے گیس کی کمی پوری کرنے کے لئے قطر کے ساتھ 16ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ جس کے مطابق 37لاکھ ٹن سے زائد ایل این جی بھی مناسب قیمت پر سالانہ درآمد ہونا تھی۔ اس معاہدے کے بعد صنعت کاروں کو حوصلہ ملا جبکہ 200میگاواٹ کے بند یونٹس کے مالکان نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود گیس کا بحران کئی سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔ وزیر پٹرولیم غلام سرور نے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کو تفصیلی بریفنگ دی۔ جس میں انہوں نے موجودہ گیس بحران کا ذمہ دار سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کو قرار دیا۔ جنہوں نے بعض گیس کمپریسر پلانٹس کی خرابی اور طلب و رسد کا تخمینہ حکومت سے چھپائے رکھا۔ اگر حکومت کو خرابی کے متعلق بروقت آگاہ کیا جاتا ، تو موسم سرما میں اس سے بچا جا سکتا تھا۔ اگر حقیقت میں گیس بحران کی ذمہ دار یہ کمپنیاں ہی ہیں تو پھر متعلقہ افسران کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔محسوس یو ں ہوتا ہے کہ بیوروکریسی پی ٹی آئی حکومت کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور ایل ڈی اے پنجاب کے سابق ڈی جی احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد بیوروکریسی نے ایکا کر لیا تھا ۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ڈی ایم جی گروپ نے کئی روز تک ہڑتال کئے رکھی۔ گو اس وقت ظاہری طور پر تو کوئی بھی افسر ہڑتال پر نہیں لیکن اندرون خانہ بیورو کریسی موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کے درپے ہے اور اب تک وہ اپنے مقاصد میں بظاہر کامیاب نظر آتی ہے ۔ اس وقت سندھ میں 630سی این جی اسٹیشن ہیں جن پر 40ہزار کے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔ گیس کی عدم دستیابی کے باعث وہ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس کی مد میں یومیہ کروڑوں روپے ملتے تھے وہ بھی رک گئے ہیں۔ جبکہ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہونے سے مسافروں کو الگ سے اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دو روز قبل ہی وزیر اعظم عمران خاں نے کراچی ‘ چیمبرکے عہدیداروں سے ملاقات میں وعدہ کیا تھا کہ گیس کی فراہمی جاری رہے گی لیکن اچانک گیس کی بندش کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے صنعت کار پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد صنعتی شعبے میں بہتری آئی تھی۔ فیکٹریوں اور کارخانے داروں کو بیرون ملک سے آرڈر ملنا شروع ہوئے تھے لیکن گیس بحران کے باعث وہ بھی اپنے آرڈر بروقت تیار نہیں کر سکیں گے۔ پہلے ہی سٹاک مارکیٹ میں تاجروں کے کروڑوں روپے ڈوب چکے ہیں۔ ان حالات میں تاجر برادری حکومت سے مایوس نظر آتی ہے۔ منی لانڈرنگ کے سدباب کے لئے حکومت نے ہنڈی اور حوالہ کے کاروبار سے وابستہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے جس کے بعد مارکیٹ سے ڈالر پہلے ہی غائب ہے تاجر بیرون ملک مال کی ادائیگیاں نہیں کر پا رہے اور کاروباری طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ملک بھر کے آئل و گیس فیلڈز کے آپریٹرز نے بھی تیل کی پیداوار نصف کر دی ہے۔ جس کے باعث خدشہ ہے کہ آئندہ چند روز میں گیس کے ساتھ ساتھ پٹرول کا بھی بحران پیدا ہو جائے گا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو پھر حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا ہونگی۔ لہٰذا حکومت قبل از وقت آئل و گیس فیلڈز کے آپریٹرز کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرے۔ موسم گرما میں بجلی بحران، موسم سرما میں گیس بحران دونوں ہی معیشت کے لئے زہر قاتل ہیں۔ یہ صورتحال آج سے نہیں ایک عرصے سے برقرار ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اسے حل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ مسلم لیگ(ن) نے 2013ء کا الیکشن ہی اسی مسئلے پر لڑا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر بجلی بحران پر قابو پائے گی۔ شروع میں تین ماہ بعدازاں چھ ماہ تک باتیں کیں لیکن پانچ سال کا عرصہ گزارنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) اس بحران کو حل نہیں کر سکی۔ پی ٹی آئی حکومت سے عوام کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ عوام ایک عرصے کے لئے دو پارٹیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب اگر انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ملی ہے تو حکومت ان کی توقعات پر پورا اترے۔ کاروباری افراد کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ ان کی مشکلات کا ازالہ کر کے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ شنید ہے کہ 3بحری جہاز بندرگاہوں پر لنگر انداز ہو گئے ہیں جن میں ایل این جی کی وافر مقدار موجود ہے۔ حکومت فی الفور اسے استعمال میں لا کر عوام کی مشکلات کا ازالہ کرے۔ اس وقت جو کمپنیاں ایل این جی مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں ان کے خلاف بھی کریک ڈائون کیا جائے۔ وزیر پٹرولیم نے چند روز تک گیس بحران پر قابو پانے کی نوید تو سنائی ہے لیکن وزیر اعظم گیس بحران کے خاتمے میں دلچسپی لے کر اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کریں تاکہ عوام کی حکومت سے جو امیدیں وابستہ ہیں وہ برقرار رہیں۔