بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ چند روز پہلے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک میں قدرتی گیس کی قیمتیں اوسطا پچیس فیصد بڑھانے کی منظوری دی۔ لیکن جو صارفین بہت زیادہ مقدار میں گیس استعمال کرتے ہیں انکے لیے یہ اضافہ 180 فیصد تک ہوگا۔ تاہم وفاقی کابینہ نے ابھی اس تجویز کو قبول یا مسترد کرنا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد گیس کی قیمتوں میں یہ دوسرا اضافہ ہوگا۔ اپوزیشن کے سیاستدان بھی گیس کی مہنگائی پر چیخ و پکار رہے ہیں لیکن اصل میں وہ خود بھی اس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ آئیے پس منظر دیکھتے ہیں۔ پانچ سال پہلے ملک میں قدرتی گیس کی شدید قلت پیدا ہوچکی تھی۔ سردیوں میں سی این جی اسٹیشن بند کردیے جاتے تھے۔ گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی تھی۔ ہر طرف ہا ہا کار مچی تھی۔ اس کمی کو کسی حد تک دور کرنے کے لیے پاکستان نے مائع شکل میں گیس یعنی ایل این جی درآمد کرنے کا ایک بہت بڑا معاہدہ قطر سے کیا جو اپریل 2016 ء میں عمل میں آیا۔ معاہدہ کے تحت پاکستان ہر سال قطر سے ستائیس لاکھ ٹن ایل این جی خریدنے کا پابند ہے۔ سمجھوتہ پندرہ برسوں پرمحیط ہے۔ مجموعی مالیت کا تخمینہ بیس ارب ڈالر ہے۔ ایل این جی بنانے کی لیے قدرتی گیس کو منفی ایک سو اسی (180) سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ پھر اس مائع کو بڑے بڑے ویسلز (کنٹینرز)میں بھرا جاتا ہے اور سمندر کے راستے خریدار ملک میں بھیجا جاتا ہے جہاں یہ مائع دوبارہ گیس میں تبدیل کی جاتی ہے۔ اس سارے عمل پر تقریباٌ ساڑھے تین ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم بی ٹی یو) خرچ آتا ہے۔ اس لحاظ سے ایل این جی کی قیمت ہمیشہ پائپ لائن سے ملنے والے قدرتی گیس سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اسے مائع میں بدلنے اور واپس گیس میں بدلنے کا عمل نہیں کرنا پڑتا۔ پاکستان نے ایران سے پائپ لائن کے ذریعے گیس خریدنے کی بجائے قطر سے ایل این جی خریدکر بہت مہنگا سودا کیا۔ ایل این جی کی قیمت پائپ لائن گیس سے تقریباً دگنی ہے۔ پاکستان قطر کو ایل این جی کی جو قیمت ادا کرتا ہے وہ عالمی منڈی میں خام تیل (برینٹ) کی فی بیرل قیمت کا 13.3 فیصد ہے۔ سمجھنے کیلیے فرض کریں کہ اگر برینٹ (خام تیل) کی قیمت ایک سو روپے فی بیرل ہو تو پاکستان قطر کوایک ایم بی ٹی یو ایل این جی کے لیے 13 روپے 30 پیسے دیتا ہے۔ ایک اعتبار سے تو یہ اچھا معاہدہ تھا کہ ملک میں گیس کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی۔ گیس سے چلنے والے بجلی کے نئے پلانٹ لگائے گئے۔ لیکن اعتراض یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بہت مہنگے داموں پر قطر سے معاہدہ کیا۔ یہی بات دیکھیے کہ قطری ڈیل کے آٹھ ماہ بعد ن لیگی حکومت نے گنوور کمپنی سے ایل این جی درآمد کرنے کا ایک اور عالمی معاہدہ کیا۔ یہ برینٹ کی قیمت کے گیارہ فیصد پر کیا گیا یعنی قطری سودے سے پندرہ فیصد کم نرخ پر۔ قطر سے ایل این جی خریدنے کا معاہدہ اسلیے بھی مہنگا ہے کہ یہ طویل مدت کیلیے کیا گیا حالانکہ عالمی منڈی کے حالات کا تقاضا تھا کہ مختصر مدت کا معاہدہ کیا جاتا۔ حالیہ کئی برسوں سے عالمی منڈی میں ایل این جی کے نرخوں میں کمی کا رجحان ہے کیونکہ اسکی سپلائی بہت بڑھ گئی ہے۔ قطر کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور امریکہ نے بھی ایل این جی بیچنا شروع کردی ہے۔ تین چار سال پہلے جاپان اور جنوبی کوریا نے ایل این جی کی خریداری کم کردی تھی۔ ایل این جی کی طلب کم ہوگئی تھی۔ جب عالمی مارکیٹ میں کسی شے کے نرخ کم ہو رہے ہوں تو اسے خریدنے کے لیے طویل مدت کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ ہمارے حکمران قطر سے پانچ سال کا معاہدہ بھی کرسکتے تھے۔ کم مقدار کا معاہدہ کرتے تو ملک کا فائدہ ہوتا۔ لیکن شائد جتنا بڑا معاہدہ اتنے زیادہ کک بیکس! حکمران چھوٹا کام کیوںکریں۔ مشکل یہ ہے کہ کک بیکس کی کوئی رسید نہیں ہوتی، اسلیے سب کہتے ہیں کہ کرپشن ثابت ہوجائے تو انہیں جو چاہے سزا دی جائے۔ ایک بہتر متبادل یہ تھا کہ ہم عالمی منڈی سے سپاٹ نرخوں پر ایل این جی خریدتے رہتے۔ سپاٹ مارکٹ کا مطلب ہے کہ آپ کوئی معاہدہ نہیں کرتے بلکہ عالمی منڈی میں فوری طور پر دستیاب نرخ پر خرید لیتے ہیں۔ مثلا ان دنوں عالمی منڈی میں سپاٹ مارکٹ میں ایل این جی قطری قیمت سے تیس پینتیس فیصد کم نرخوں پر میسر ہے۔ برازیل دنیا میں ایل این جی کا بہت بڑا خریدار ہے اور زیادہ تر سپاٹ مارکٹ سے ہی خریداری کرتا ہے۔ اگر قطری قیمت اور سپاٹ مارکٹ کا فرق قائم رہتا ہے تو پاکستان کو روزانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا رہے گا۔ پندرہ برسوں میں سینکڑوں ارب روپے کا خسارہ۔ یہ کارنامہ ہمارے حکمران ہی انجام دے سکتے تھے۔ قطر سے مہنگے ڈیل کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ اس ایل این جی کے سسٹم میں آتے ہی صارفین کیلیے گیس مہنگی ہوگئی ۔خاص طور سے صنعتوں کے لیے۔ ان کی مال بنانے کی لاگت بڑھ گئی۔ ن لیگ کے دور میں بہت سے کارخانے بند ہوئے۔ مہنگی ایل این جی سے بننے والی بجلی بھی مہنگی تھی جسکا صارفین کو بوجھ اٹھانا پڑا۔ آج ن لیگ کے لیڈرز مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں لیکن ان کے گزشتہ دور حکومت میں بجلی کی قیمتیں تقریبا دگنی ہوگئیں۔ ن لیگی حکومت نے گیس کے شعبہ کا گردشی قرضہ صفر سے بڑھا کر 150ارب کردیا۔ چالاکی یہ دکھائی کہ گھریلو استعمال کیلیے گیس کی قیمتیں زیادہ نہیں بڑھائیں تاکہ عوام کے ردعمل سے بچ سکے۔ جب گردشی قرضہ پیدا ہوگیا بوجھ تو قومی خزانہ پر ہی پڑا۔ وہ بھی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ موجودہ حکومت اس گردشی قرضہ کو ختم کرنے کیلیے گیس کی قیمتیں بڑھانے جا رہی ہے تو ن لیگ کے لیڈرز اس پر شور و غوغا مچا رہے ہیں۔ یہ انہی کا بویا تھا جو قوم آج کاٹ رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب تک ہم پائپ لائن سے نسبتا سستی گیس نہیں خریدتے گیس مہنگی ہوتی رہے گی۔