بات یہ ہے کہ تین بار اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بننے والوں کے دامن میں عدلیہ اور قانون کے حوالے سے کوئی اچھی مثالیں موجود ہیں نہ ہی ان کا ماضی ایسا ستھرا اور شفاف ہے کہ آج ان کی دھانسو قسم کی پریس کانفرنس پہ آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے۔جس وقت نااہل اور عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف کی صاحبزادی، مریم صفدر جو خود بھی سزا معطلی کا عبوری دورانیہ کاٹ رہی ہیں، اپنی دانست میں کایا پلٹ قسم کی پریس کانفرنس کررہی تھیں جس میں جج ارشد ملک کی غیر مبہم سی ویڈیو دکھا کر مجھے میری جوانی لوٹا دو جج صاحب جیسے فلمی مطالبے کی طرز پہ سزا یافتہ نواز شریف کی سزا معطلی کا مطالبہ کیا جارہا تھا ، مجھے حیرت ہورہی تھی کہ محترمہ کیا سچ مچ سنجیدہ ہیں؟ میں اس تاثر سے متفق نہیں ہوں کہ اس پریس کانفرنس کے مندرجات سے شہباز شریف کو کسی قسم کی بیزاری لاحق تھی یا وہ اس سے برات کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن بھتیجی اور پارٹی کے ہاتھوں مجبور تھے۔اس سلسلے میں کچھ احباب ان کے چہرے کے تاثرات کا حوالہ دیتے ہیں لیکن وہ موصوف کے نارمل ایکسپریشز ہیں۔شہباز شریف کا لہجہ اسی دن بدل گیا تھا جس دن رانا ثنا اللہ اینٹی نارکوٹکس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔ رانا ثنا کیس منی لانڈرنگ اور ڈرگ اسمگلنگ کے عالمی پس منظر میں ایک ایسا کیس ہے جس نے مفاہمت کے تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ مذکورہ پریس کانفرنس کا فیصلہ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا اور اس کے لئے مریم صفدر کا انتخاب کیا گیا ۔ کون کس سے جان چھڑا نا چاہتا تھا، اس پریس کانفرنس کے مندرجات، مشمولات اور اس کے شرکائے کار کی خاموشی سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ باقی رہ گئی اس میں پیش کردہ ویڈیو تو وہ اتنی مبہم نہیں جتنی نظر آرہی تھی۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ وہ وڈیو جو دکھائی جارہی ہے ،اصل نہیں ڈسٹورٹڈ ہے۔ یعنی اس میں آڈیو اور ویڈیو دونوں جان بوجھ کر مبہم رکھے گئے ہیں۔ اسے پیش کرنے والی خاتون کو اچھی طرح علم تھا کہ اس کا فرانزک کروایا جائے گا۔ غالب امکان یہی ہے کہ تب اصل ویڈیو پیش کی جائے گی جس کی آڈیو وہی ہوگی جو پریس کانفرنس میں ٹرانسکرپشن کی صورت میں دکھائی جارہی تھی۔ اس سے بہت کچھ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا تھا کہ مریم صفدر نے بظاہر جج ارشد ملک کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ، کانوں کو ہاتھ لگا کر، ہم تو بھئی کسی کی عزت نہیں اچھالتے والے مخصوص زنانہ انداز میں دس سال پرانی جس ویڈیو کا ذکر کیا تھااور جسے گرما گرم چائے کے ساتھ ارشد ملک کو دکھا کر بلیک میل کیا گیابہت ممکن ہے کہ خود نون لیگ نے ہی بنائی ہو۔ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں اس شبے کی تصدیق کردی ہے کہ وہ ویڈیو خود نون لیگ نے انہیں دکھائی تھی اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پہ مجبور کیا تھا۔ اگر ان کا یہ بیان درست ہے تو انہوں نے نواز شریف کو فلیگ شپ کیس میں بری کیا تھا۔یہی بات مریم صفدر بھی کہتی ہیں کہ انہیں اوپر والوں نے اس لئے بلیک میل کیا تاکہ وہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیں۔ یعنی دونوں کے بیانات کے مطابق وہ ایک بار ایک فریق کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں تو دوسری بار دوسرے کے ہاتھوں۔اب اگر اس کیس کا فیصلہ جج صاحب کے دبائوکے تحت کئے گئے فیصلوں کی منسوخی یا ری ٹرائل کی صورت میں آتا ہے تو جہاں نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کالعدم تصور ہوگی وہیں فلیگ شپ ریفرنس میں بریت بھی کالعدم تصور ہونی چاہئے۔اسی طرح اگر ایک کیس میں ری ٹرائل کا فیصلہ ہوا تو دوسرے کیس میں بھی ری ٹرائل کا فیصلہ ہی عدل کا تقاضہ پورا کرے گا ورنہ یہ ادھورا اور تعصب پہ مبنی فیصلہ متصور کیا جائے گا اور اسی کے لئے تو مریم صفدر نے پریس کانفرنس کا دھماکا کیا تھا۔ نوازشریف کے خلاف العزیزیہ میں ضمانت کی درخواست کو بھی اسی کیس کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے تو فلیگ شپ کیس کو بھی ساتھ نتھی کرنا چاہئے کیونکہ وہ فیصلہ بھی تو دبائو میں کیا گیا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ وہ وڈیو جس میں ناصر بٹ جج صاحب سے باتیں اگلوا رہا ہے اور جس میں مبینہ طور پہ جج ارشد ملک طے شدہ فیصلہ سنانے کی بات کررہے ہیں، وہ نون لیگ نے جج صاحب کی لاعلمی میں بنائی لیکن یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے قبل فیصلہ آچکا تھا یا اس کے بعد آیا۔ جس وڈیو سے جج صاحب نواز شریف کے خلاف استعمال ہوئے،وہ وڈیو بقول مریم صفدر، حساس ادارے نے بنائی لیکن جج ارشد میرے شبہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سولہ سال قبل بنائی گئی یہ وڈیو خود نون لیگ نے انہیں دکھائی۔ مسئلہ یہ ہے کہ وڈیو پہ تاریخ تو نظر آجاتی ہے لیکن بنانے والے کا نام نہیں آتا۔ہاں کس نے دکھائی ہے یہ بیان حلفی میں موجود ہے جو محض بیان ہے اور اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ بیان حلفی میں جج صاحب نے، جنہیں فی الحال کیس کی حساسیت کے پیش نظر احتساب عدالت سے واپس لاہور بھیج دیا گیا ہے، جو خوفناک جوابی انکشافات کئے ہیں، وہ بھی بیان حلفی ہی ہیں۔بیان حلفی کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا کوئی بھی بیان حلفی بغیر کسی ثبوت کے سچ مانا جاتا ہے یا اس کے لئے سپورٹنگ ایویڈنس(گواہی یا ثبوت) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیان حلفی سے مکرنا قانونا جرم ہے اور اس کی سزا بھی موجود ہے تو یقینا خود بیان حلفی کی کوئی قانونی حیثیت تو ہوگی۔ کیونکہ قانون کسی ایسی حرکت کے ارتکاب پہ سزا نہیں دے سکتا جو اس ہستی یا شے کے خلاف کیا گیا ہو جس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو۔اس سے بھی بڑھ کر ایک فاضل جج ، جس پہ ایک اہم مقدمے میں فریق بننے کا الزام ہو اور اب وہ خود ایک فریق بن چکا ہو، کے بیان حلفی کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ایک فریق تو اپنے حق میں کئی مزید ویڈیوز کی موجودگی کا دعوی کرتا ہے جس میں اگرجج صاحب کی کردار کشی کے علاوہ کوئی کام کی بات ہے اور انہیں ثبوت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ اسی بنیاد پہ ایک علیحدہ کیس کی حیثیت اختیار کرلیں گی، جن کا فرانزک ہوگا یا وہ اسی کیس کا حصہ بنیں گی ؟۔یہ سوال اہم ہے کہ جج ارشد ملک کے پاس اپنے بیانات کے ثبوت میں کیا ہے؟لیکن حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ کی تاریخ ججوں کو دھمکانے اور خریدنے کے شرمناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ وہ شہباز شریف کا جسٹس قیوم کو فون ہو یا سپریم کورٹ پہ حملہ۔کیوں نہ اسے ہی اس کیس کا پریسیڈینٹ بنا لیا جائے؟