کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی نفسیاتی صورت حال اس بے بس ،غریب اورماڑے والدین کی سی ہے جس کی بیٹی کو گائوں کا وڈیرہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر دن دیہاڑے اٹھا کر لے جاتا ہے اور غریب بے چارہ بس دہائیاں دیتا رہ جاتا ہے۔ تھانے کے چکر بھی لگاتا ہے۔ گائوں سے کسی ایک آدھ کی اخلاقی مدد کے بل بوتے پر تھانے میں ایف آئی آر بھی کٹوا لیتا ہے لیکن بات اس سے آگے بڑھتی نہیں۔ گائوں کا کوئی شخص کھل کر اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ نہ کوئی کھل کر ظلم کو ظلم کہتا ہے کیونکہ وہ سب بھی معاشی اور سماجی مرتبے کے لحاظ سے وڈیرے سے کم حیثیت کے لوگ ہیں۔ غریب بوڑھے والدین گائوں کے وڈیرے کے اس کھلے ظلم پر بس اپنا سر پیٹنے جوگے رہ جاتے ہیں۔ تھانہ کچہری بھی بے بس ہے۔ وڈیرے نے اپنی دولت کے بل بوتے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مٹھی میں کیا ہوا ہے، پھر ان بوڑھے والدین کو کوئی صاحب شعور جو بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے، مشورہ دیتا ہے کہ شہر کے پریس کلب کے باہر جا کر احتجاج کرو، مظاہرہ کرو، دھرنا دو اور سب کو اپنے اوپر بیتنے والے ظلم سے آگاہ کرو۔ آج کل ظلم کے شکار یہ غریب بے بس بوڑھے والدین شہر کے پریس کلب کے باہر احتجاجی بینرز اٹھائے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہیں، کیمرہ مین تصویریں بناتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے کیمرے ان کی فوٹیج ریکارڈ کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کو برباد کر کے دکھ دینے والے ظلم کی یہ داستان ٹی وی چینلوں پر بڑی بڑی اہم خبروں کے ہنگام میں ذرا سی ہی جھلک کی صورت نمودار ہوتی ہیں یا پھر اگلے روز کے اخبارات میں، سٹی پیج کے کسی کونے کھدرے میں دو لائنوں کی یک کالمی خبر کی صورت دکھائی دیتی ہے پھر اللہ اللہ خیر صلاّ! پاکستان بھی کشمیر کے مسئلے پر کچھ ایسی صورت حال کا شکار ہے۔ قرضوں میں جکڑا ہوا، بدترین معاشی صورتحال، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے بیل آئوٹ پیکج پر انحصاری، پچاس فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے نیچے۔ چین سے لے کر عربوں تک کے آگے پھیلائے ہوئے کشکول کی کہانی، اندرونی محاذ پر سیاسی عدم استحکام، سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کے مائونٹ ایورسٹ، بچہ بچہ قرضوں میں جکڑا ہوا۔ اقتصادی نموکی شرح زوال پذیر، مزید یہ کہ تمام عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں دنیا بھر کو بتا رہی ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات میں مزید گراوٹ کا خدشہ ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان اقوام عالم میںکہاں کھڑا ہے۔ کسی غریب ہاری، یا قرضوں میں جکڑے ہوئے کسی بے بس مزارع کی طرح کم تر سماجی حیثیت رکھنے والا ملک ہی تو ہے ناں۔ تو پھر کون ہماری آواز میں آواز ملائے۔ کون ہماری آواز سنے۔ ہماری دہائی کسی قریۂ سماعت تک نہیں پہنچتی بس معاشی مفادات اور بے حسی کی سنگلاج چٹانوں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کشمیر کے 80 لاکھ مظلوموں پر ظلم توڑ کر، محصور کر کے، بھارتی وزیر اعظم کامیاب سفارتی دورے کر رہا ہے۔ عربوں میں اس کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ ریڈ کارپٹ استقبال ، مہمان خاص کی خدمات کے اعتراف میں امارات کا سب سے قابل قدر ایوارڈ۔ آرڈر آف زائد۔ 75ملین ڈالر کے معاشی معاہدے۔ عربوں کا کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے کے ساتھ گہری چاہت اور بھائی چارے کا اعلان کرنا اور عین اس موقع پر جب کہ ان کے قابل قدر مہمان جس کے گلے میں وہ آرڈر آف زائد ڈالتے ہیں، کشمیری مسلمانوں پر بربریت اور ستم کرنے کے حوالے سے پوری دنیا کے اہل احساس اسے ہٹلر اور قاتل کہہ کر پکارتے ہیں۔ محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ 5اگست سے شروع ہونے والے پہلے سے طے شدہ پالیسی کے تحت ۔ ڈرامے کا کلائمیکس سین تھا۔ جس کا سٹیج کیا جانا اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر اس کی اوقات بتائی جا سکے اور یہ بھی کہ جس مسلم امہ کے جذباتی نعرے وہ اپنی تقریروں، تحریروں میں جگاتے ہیں وہ محض ایک سراب ہے۔ اب ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک قرآن پر ایمان لانا عرب اور غیر عرب مسلمانوں، دولت مند اور غریب مسلمانوں کو متحد نہیں کرتا۔ قوموں کا اتحاد اب معاشی مفادات کے مشترک ہونے پر ہی ہوتا ہے معاشی مضبوطی صرف انفرادی طور پر انسانوں ہی کے نہیں بلکہ اقوام عالم میں ملکوں کے سماجی مرتبے بھی طے کرتی ہے۔ بھارت امارات کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بھارت اور متحدہ امارات میں باہمی تجارت کا حکم 50بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں بھارت سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ خلیجی ریاستوں میں معیشت اور کاروبار کو چلانے میں 3.3ملین سے زیادہ بھارتی ماہرین مصروف کار ہیں۔ ان میں دیہاڑی دار مزدوروں سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچرز اور اربوں پتی سرمایہ کار شامل ہیں۔ انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی روابط کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ گلف کلب میں ہیلی میڈیکل یونیورسٹی کا مالک بھارتی مسلمان سرمایہ کار تھمبے معید الدین (Thambay Moidudeen)نے 1969ء میں قائم کی تھی۔ بھارتی امارات کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اب تو مقامی عربوں کے مقابلے میں بھارتیوں کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2بھارتی اور ایک مقامی عرب کی شرح ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان دیکھ لے کہ اپنی کمزور اور قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کے ساتھ کہاں کھڑا ہے۔! یہ ساری تلخ حقیقتیں اپنی جگہ مگر میں کیاکروں کہ میرا پاکستانی جذباتی ، حساسیت سے بھرا ہوا دل ، حیرت میں ڈوبا ہوا سوچتا ہے کہ یا اللہ تو ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ممالک کے دلوں کی رگوں میں لہو کی بجائے بے حسی کا سیال مادہ کیوں ہے؟ کہ جو مظلوم کشمیری مسلمانوں پر ہونے والی بربریت اور ظلم پر انہیں ٹس سے مس نہیں کرتا۔ اب تو غیر مسلم آوازیں بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھ رہی ہیں! روز قیامت فیصلے مضبوط معیشت اور بھاری سرمایہ کاری کی بنیاد پر نہیں ہوں گے۔ اس روز فیصلوں کے معیار مختلف ہوں گے۔