میں انتظار کرتا رہا میری نظریں بار بار نیوز چینلوں کی تہہ میں سرکتے الفاظ کھنگالتی رہیں،میں واٹس اپ گروپوں میں جھانکتا رہا ،ویب سائیٹس کھولتا رہا ،اخبارات کے آن لائن ایڈیشنوں میں تازہ ترین خبریں پڑھتارہا لیکن دفتر خارجہ کے سامنے مکمل خاموشی دکھائی دی ،آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ایسا اقدام تو نہ تھا کہ اسے یوں ٹھنڈے پیٹوں پی لیا جائے ؟ ابھی تو د و برس بھی نہیں ہوئے مقبوضہ کشمیر میں نریندرمودی کی آئینی دہشت گردی اتنے آرام سے پی لی جائے گی، اس پر حیرت کو بھی حیرت ہے ،پانچ اگست کی صبح دفتر خارجہ کے سامنے احتجاج کا دورانیہ بمشکل گھنٹے بھر کا تھا ،جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے، 30 سے 40 لاکھ غیر کشمیریوں کو وادی کا ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے، بھارت اس اقدام کے ذریعے وہاں حالات تبدیل کرنا چاہتا ہے ۔انہوں نے کشمیری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، جب تک کشمیرآزاد نہیں ہوتا پاکستان کا کوئی فرد چین سے نہیں بیٹھے گا۔ یادش بخیر کہ مودی کی آئینی دہشت گردی کے بعد وزیرا عظم عمران خان نے ہر جمعہ کو احتجاجا دو منٹ کی خاموشی کا اعلان کیا تھا، یہ احتجاج دو سال کے مختصر عرصے میں ہی سال بھر پر محیط ہوگیا ،ہم سال بھر میں اپنی’’ شہہ رگ‘‘پر پڑا دشمن کا ہاتھ دورکرنے کے لئے کئے جانے والے داؤ پیچ کا جائزہ لیں ،فہرست بنائیں کہ عالمی میڈیاکو ہم کتنی خبریں دے سکے ؟ ہمارے موقف کو سپورٹ کرتا کتنا content عالمی میڈیا تک پہنچا اورہم اپنی آواز کہاں تک پہنچا سکے، توسوالفاظ سے زیادہ کا پیراگراف بھی نہیں بنتا،مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت وہاں یورپی یونین کا وفد سیر سپاٹے کے لئے لاچکا ہے کہ دیکھ لو دکانیں کھلی ہیں،ڈل جھیل میں کشتیاں دوڑ رہی ہیں،بنکوں،دفاتر میں کام ہورہا ہے ،یہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے، کشمیری وزیر اعظم مودی کے اس فیصلے پر بغلیں بجارہے ہیں ،رہی نو لاکھ فوج تو وہ یہاں باغات سے سیب توڑنے اور جھیل ڈل کی صفائی کے لئے لگائی گئی ہے ۔۔۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اس کے مقابلے میں کیا کیا؟ حال ہی میں آزاد جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے ،یہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے تقابل کا بہترین موقع تھا ،مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ہمارے کتنے غیر ملکی مہمان یہ الیکشن دیکھنے پہنچے ؟ اس پر ہم مقبوضہ کشمیرکی آزادی تک چین سے نہ بیٹھنے کا پیغام دیتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ سری نگر ،شوپیاں اور بارہ مولہ میں یہ ڈسکس ہورہے ہوں گے ۔ اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا سابق سفیر اور بھارت میں 2014ء سے 2017ء تک پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط سے اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کی نشست میں ملاقات ہوئی ،وہ فارن سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد عرصہ ملازمت کی مصلحتوںکا ’’کفارہ‘‘ ادا کر رہے ہیں، کھل کر بولتے ہیںاور پاکستان کی کشمیر پالیسی کے کڑے ناقد ہیں ،ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے پلوں کے نیچے سے پانی تیزی سے بہہ رہا ہے۔ کشمیر کے تنازعے پر ہماری پوزیشن،کمزوریاں،کوتاہیاںگلے شکوے اپنی جگہ لیکن اس ساری بازی میں کشمیری وہ ترپ کا دوسرا پتا ہیں، جو بازی پلٹ سکتے ہیں،بھارت کشمیریوں کو دبانے کے لئے اپنی افواج کی تعداد نو لاکھ تک لے جاچکا ہے ،نئی دہلی یہ حقیقت جان چکا ہے کہ وہ کشمیریوں کا دل جیت سکتے ہیں نہ کنٹرول کر سکتے ہیں ،چانکیہ کے چیلے اب کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے چلے ہیں ،خصوصی حیثیت کی وجہ سے پہلے کسی غیر کشمیری کو ڈومیسائل جاری نہیں کیا جاسکتا تھا،وہ کشمیر میں کسی اراضی کے مالکانہ حقوق بھی حاصل نہیں کرسکتا تھا لیکن اب تینتالیس لاکھ ڈومیسائل جاری کئے جاچکے ہیں، مودی آئندہ چند برسوں میں کیا کرنے جارہا ہے ؟ کشمیر میں آبادی کا توازن کیا ہوگا ؟اور اسکے نتائج کیا نکلیں گے ؟ ان سوالوں کے جواب بدترین خدشات میں لپٹے ہوئے ہیں،دنیا یونہی مجرمانہ چپ اختیار کئے رہتی ہے اورآنے والے چند برسوں میں بھارت کشمیر میں آبادی کاتواز ن بدل کر ریفرنڈم کی طرف چلا جاتا ہے تو پھرہمارے ہاتھ کیا رہا! مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو اقلیت بنانے کی سازش کشمیر کی پوری تحریک لپیٹ سکتی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںاب بھی ہمارے پاس بھارت کے خلاف موثر ہتھیارہیں ۔آزاد جموں کشمیر کے صدرسردار مسعود کے مطابق 47ء سے اب تک ڈھائی لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں ،ان ڈھائی لاکھ کشمیریوں کا خون اتنا ہلکا تو نہیں کہ حالات کی دھوپ لہو کی سرخی اڑا دے ،ہمیں جارحانہ سفارت کاری اختیار کرنا ہوگی ،اپنی گول پوسٹ پر دفاعی حصار کھینچنے کے بجائے آگے بڑھ مخالف کے ہاف میں کھیلنا ہوگا ،بھوٹان اور بنگلہ دیش سے چپکی شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلا نے والی ریاستیںآسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام،منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ باغی تحریکوں کا مرکز ہیں بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ،مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم ہیں ناگالینڈ کے ناگا باغی اورنکسل باڑیوں کی تحریک بھارتی وجود کو چیلنج اور بھارت کے دردر سر میں اضافہ کر رہی ہیں ،اس درد کی شدت میں اضافہ تحریک کشمیر کے حق میں ہے پھرخالصتان کی تحریک ختم نہیں ہوئی ،ایک بھارتی ٹی وی کے مطابق صرف آسام میں 34باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جو ملک کے 162اضلاع پر کنٹرول رکھتی ہیں،اقوام متحدہ کا چارٹر مغضوب قوم کو اپنے مسلح دفاع کا حق دیتا ہے،عالمی قوانین کے ماہر احمد بلال صوفی اس پر پوری ریسرچ کئے بیٹھے ہیں ،ہمیں اپنی ہومیو پیتھک حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی، بہترین باڈی لینگویج کے ساتھ مخالف کی ڈی کی طرف بڑھنا ہوگا،لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ ٹیم گول کی نیت بھی رکھے!