ذکیہ مشہدی

’ابا…‘‘ یہ چھوٹا سا، مختصر ترین لفظ عارف کے گلے میں ایک بڑا سا گولہ بن کر پھنس گیا۔

’’ابا…‘‘ اس نے بدقت تمام ہمت جمع کی۔

بڑی سی انگنائی، برآمدے کے کھمبے، ایک محراب میں ٹھکی میخ میں لٹکا مٹھو کا پنجرہ۔ یہ وہی مٹھو ہے کیا جو عارف نے پالا تھا اور اس کے گھر چھوڑنے کے وقت یہاںٹنگا رہتا تھا اور جسے منو ماموں نے گالیاں سکھائی تھیں تو ابا نے سخت ناراض ہو کر اماں کے پورے خاندان کا بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیا تھا؟ لیکن طوطے کتنی بھی لمبی عمر پاتے ہوں، چالیس برس تک تو نہیں جی سکتے۔ پھر کیا یہ سارا کچھ پتھر ہو گیا تھا؟ وقت کے اوپر منجمد؟ یا پھر دیواروں پر لگی گہرے سبز رنگ کی کائی کی موٹی پرت کے نیچے محفوظ، جیسے برف کی تہوں میں لاشیں محفوظ رہ جاتی ہیں، اور جب صدیوں بلکہ قرنوں بعد برف پگھلتی ہے تو جسم ویسا کا ویسا نکلتا ہے جیسا کہ وہ تھا۔

’’ابا…ا…‘‘ آواز دوڑتی چلی گئی۔ یہاں سے وہاں تلک۔ گھر سے کوئی ایک فرلانگ دور بہتی گومتی کے پانی میں ہلوریں پڑیں۔ پل کے نیچے کتنا پانی گزر چکا تھا؟ ایک سمندر جتنا یا اس سے بھی کچھ زیادہ؟

تخت پر بچھی کثیف دری پر بیٹھے میلے کچیلے ابا نے گدلی آنکھیں پٹپٹائیں اور اپنا پوپلا منھ کھولا۔ بوڑھے پھونس ابا، جیسے سوکھلی مچھلی، جیسے آم کی کھٹائی۔

’’کون؟ کون؟ ہے؟‘‘ ان کی آواز کانپتی بے یقینی بالکل نمایاں تھی۔ کسی ایسی روح کی بے یقینی اور بے چینی جسے عالم برزخ میں صدیاں گزر چکی ہوں اور تب آج فیصلے کا دن آیا ہو کہ اسے جنت میں بھیجا جائے گا یا جہنم میں۔

’’ابا، میں عارف ہوں…‘‘ عارف نے گلے میں پھنسے اس مہیب گولے کونگل لیا تا کہ اس کی آواز آزاد ہو سکے، آواز جسے ابا پہچان سکیں۔

’’عارف؟ کون عارف؟‘‘ ابا کی آواز ہی نہیں، ان کا پورا وجود تھر تھرانے لگا تھا اور پوپلا منھ پورا کا پورا کھل گیا تھا۔

’’ابا، عارف… میں… میں عارف… آپ کا بیٹا، ابا۔‘‘ وہ اور قریب آیا اور اپنا ہاتھ ان کے شانے پر رکھ کر خود جیسے پتھر کا ہو گیا۔ اس نے جنرل سائنس کی کتاب میں کبھی پڑھا تھا کہ انسانی جسم میں پوری دو سو چھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ وہ ہڈیاں ایک مٹھی میں سما سکتی ہیں، یہ تو اس نے کبھی نہیں پڑھا تھا۔ پھر ابا ایک مٹھی میں سمانے لائق کیسے ہو گئے تھے؟ اچھے خاصے لانبے، صحت مند، دبنگ آواز اور دبنگ شخصیت والے ابا۔ اس لق و دق آنگن میں، اس بھرے پُرے مکان کی ویرانی میں جہاں کبھی بزرگ تھے اور جوان بھی بچے بھی تھے اور شیرخوار بھی، وہ ایک خالی صفحے پر لگا نقطہ تھے یا تپتے ریگزار میں پانی کی لرزتی ایک بوند، بھاپ بن کر اڑ جانے کو تیار۔ آج اس نے ان گدلی آنکھوں میںجھانک کر دیکھا جن سے آنکھیں ملانے کی ہمت وہ پہلے کبھی نہیں کر سکا تھا۔ وہ تو اماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں تکا کرتا تھا… کٹورا سی چھلکتی، بڑی بڑی روشن آنکھوں کو مسکراہٹ جن میں جیسے ٹھہر گئی تھی جب عارف چھوٹا سا تھا۔

جب عارف چھوٹا سا تھا تب اماں بائیں شانے پر لٹکتی اپنی تازہ دھلے بالوں کی نم چوٹی کو پیچھے پھینکتی، ایک طرف سے دودھ پلاتی، دوسرے ہاتھ سے اس کے گال میں ہولے سے گدگدی کرتی تھیں اور دادی انہیں ڈانٹا کرتی تھیں، ’’بہو، کیسی بیوقوف ہو تم! دودھ پیتے بچے کو گدگدی کرتی ہو۔ پھندا لگ جائے گا۔‘‘ (اماں نے رضاعی مدت سے بھی کچھ زیادہ، کوئی تین برس تک عارف کو دودھ پلایا تھا اور عارف کو کبھی پھندا نہیں لگا تھا۔) وہ دادی کی بات سنی ان سنی کر جاتیں اور ملائم، ریشم جیسے بالوں کی بھیگی بھیگی لٹ اس کے گالوں سے چھواتیں۔

’’پھندا پڑے نہ پڑے، نظر ضرور لگ جائے گی‘ دادی پھر بڑبڑاتیں۔ ’’جتنی دیر دودھ پیتا ہے، تم اس کا منھ تکتی رہتی ہو۔‘‘

’’میری نظر؟‘‘ اماں کی نظروں میں ٹھہری مسکراہٹ باہر چھلک چھلک پڑتی۔ ’’ماں کی کہیں نظر لگتی ہے؟ ماں کی تو دعاؤں کا سایہ ہوتا ہے اپنے بیٹے پر۔‘‘

کم آمیز، کم سخن، درشت مزاج ابا نے سارا کچھ سن سن کر ایک مرتبہ ہی اپنی کھر کھراتی آواز میں لقمہ دیا تھا، ’’جب دیکھو تب ماں کے ہی قصیدے سن لو۔ باپ کی محبت، باپ کی دعاؤں کا تو سایہ جیسے ہوتا ہی نہیں ہے بیٹے پر…‘‘

یہ سب عارف کو دادی نے بتایا تھا جب عارف چھوٹا ہوتے ہوئے بھی کچھ بڑا ہو گیا تھا اور دادی سے کہانی سنانے کی ضد کیا کرتا تھا۔ جب کبھی وہ دن میں کہانی سنانے کی ضد کرتا، وہ ہر گز کہانی نہ سناتیں؛ بس یہ باتیں لے کر بیٹھ جاتیں، اس وقت کی باتیں جب وہ بالکل ننھا سا تھا اور چُس چُس اماں کا دودھ پیتا تھا یا اس وقت کی باتیں جب وہ پیدا نہیں ہا تھا۔ (تب اماں کے یہاں تیسری بار بھی بیٹی ہی پیدا ہوئی تھی… آسیہ آپا عرف چھوٹی آپا… تو دادی نے اماں کو وارننگ دی تھی کہ انہیں بس ایک موقع اور دیا جائے گا۔ اگر اس بار بھی بیٹی ہی پیدا کی تو وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرائیں گی؛ اور بہت کم مسکرانے والے ابا منھ پھیر کر مسکرائے تھے اور دادی نے اس مسکراہٹ کی صراحت یہ کہہ کر کی تھی کہ وہ دادی کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے تھے؛ ہو سکتا ہے دل ہی دل میں دعا کی ہو کہ اماں کے یہاں چوتھی زچگی میں بھی لڑکی پیدا ہو، مگر اماں کا کہنا تھا کہ ابا اپنی والدہ کی حماقت کی وجہ سے مسکرائے تھے۔ جو بھی ہو، ابا کی مسکراہٹ کا سبب مونالیزا کی مسکراہٹ کے سبب کی طرح رازہی رہ گیا، اس لیے کہ اگلی مرتبہ عارف پیدا ہو گیا تھا۔ دادی دن میں کہانی اس لیے نہیں سناتی تھیں کہ ان کا کہنا تھا کہ دن میں کہانی سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ اس لیے وہ دن میں جو کچھ سناتیں وہ کہانی نہیں تھا۔ لیکن پھر عارف راستہ کیوں بھولا… اپنے ہی گھر کا راستہ پورے پینتیس برس تک اسے یاد نہ آیا۔

کوئی گھنٹہ بھر پہلے وہ اپنی گلی کے مہانے پر آکھڑا ہوا تھا۔ پھر راستہ اس کے ذہن میں ان نقوش کی طرح اجاگر ہو اٹھا تھا جن پر جمی مٹی کو کسی نے برش لے کر جھاڑ دیا ہو۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ اس کے سر پر اماں کی دعاؤں کا سایہ تھا (اور شاید ابا کی دعاؤں کا بھی جو کبھی دکھائی سنائی نہیں دیتی تھیں) اس لیے وہ بھولا تو سہی لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔

’’آپ کسے ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘

نکڑ پر جگ رام داس حلوائی کی دکان جوں کی توں موجود تھی۔ کڑاہ میںدودھ پینتیس برس سے کھول رہا تھا اور کناروں پر ملائی اکٹھا ہو رہی تھی۔ بس فرق اتنا سا آیا تھا کہ پہلے کھلے تھالوں پر مور چھل جھلتا جگ رام تھلتھلی توند لیے بیٹھا رہتا تھا، اب جگ رام کے بیٹے نے شیشے کے خانوں میں مٹھائیاں رکھی تھیں تا کہ اسے مور چھل نہ جھلنا پڑے اور جگ رام کے بیٹے نے، جس کی عمر عارف جیسی ہی تھی، دھوتی کی جگہ پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ سڑک کے بعد گلی اتنی ہی تنگ تھی اور اس کا فرش اب بھی اینٹوں کا تھا۔ چھوٹے شہر انتہائی سست رفتار سے آگے بڑھتے ہیں۔ پھر کیوں ٹھٹکا عارف؟ ’’آپ کس کو ڈھونڈتے ہیں؟‘‘

سب کچھ ایسا ہی ہے تو کیا گلی محلے کے بچے اب بھی وہ کھیل کھیلتے ہیں؟

وہ دو پارٹیاں بناتے… ہر پارٹی میں کوئی چار چار پانچ پانچ بچے۔ وہ ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے ٹھمک ٹھمک کر آگے بڑھتے اور بڑی لے سے گاتے: ’’تم کس کو ڈھونڈتے ہو، ڈھونڈتے ہو بڑی خوشی سے؟‘‘ پھر ویسے ہی ٹھمک ٹھمک کر پیچھے جگہ پر آ جاتے اب دوسری پارٹی ٹھمکتی ہوئی آگے بڑھتی: ’’ہم پھولوں کو ڈھونڈتے ہیں، ڈھونڈتے ہیں بڑی خوشی سے!‘‘

عارف بھی بچوں کی کمر میں ہاتھ ڈال کر، ناچتے مور کی چال چلتا، یہ کھیل کھیلا کرتا تھا۔ کوئی چھ سات برس کی عمر تک لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ شامل ہوتی تھیں۔

’’تم کس کو بھیجو گے، بھیجو گے، بڑی خوشی سے؟‘‘ تو کھیل میں اگلا سوال ہوتا۔

’’ہم نمو کو بھیجیں گے، بھیجیں گے بڑی خوشی سے!‘‘

جسے بھیجا جاتا وہ چور بنتا اور کھیل آگے بڑھتا۔ نہ جانے کیوں ادبدا کے لوگ اس موٹی سی گل گھوتھنا لڑکی کو اکثر چور بنا کر بھیجا کرتے تھے۔ آگے چل کر اس نے عارف کا دل ہی چرا لیا اس موٹے گالوں اور موٹی موٹی سیاہ آنکھوں والی لڑکی نے جس کی ماں اکثر عارف کے گھر میں گیہوں پھٹکنے اور دال دلنے کے لیے آیا کرتی تھی (تب پیکٹ میں بکنے والا مہنگی کمپنیوں کا آٹا دستیاب نہیں تھا اور اکثر ثابت دالیں گھر میں ہی دَلی جاتی تھیں) اور کچھ اور کام بھی نمٹا دیا کرتی۔ اسے لوگ ’دپٹھانن‘‘ کہا کرتے تھے۔ گرمی کے موسم میں وہ بڑے سے تھرمس میں قلفی ڈال کر گھر گھر قلفی پہنچاتی (آئسکریم ابھی شہر میں عام نہیں ہوئی تیھ)۔

عارف نے ضد باندھ لی تھی کہ شادی کرے گا تو نعیمہ عرف نمو عرف پٹھانن کی بیٹی سے۔ پٹھانن شوہر کے چھوڑ دینے کے بعد سخت محنت کر کے عزت آبرو کے ساتھ اپنا اور بیٹی کا پیٹ پال رہی تھی۔ سٹرپٹر کرتی چار گھرگھوم کے کام کرتی لیکن نعیمہ کو اس نے اسکول میں ڈال کر پڑھایا اور بری نظروں سے یوں چھپا کر رکھا جیسے مرغی چوزوں کو چھپا کر رکھتی ہے۔

ابا نے عارف کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اس کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے طے کر رکھی تھی۔ ابا دھکے نہ مارتے اور چھوٹے بڑے سب کے سامنے یوں ذلیل نہ کرتے تو بات اتنی نہ بگڑتی۔ عارف کے دل پر کہیں اتنی گہری چوٹ پہنچی کہ وہ گیا سو گیا۔ اماں کے آنسو بھی اس درد کا مداوانہ کر سکے۔ ویسے بھی ابا کون سا پیار جتایا کرتے تھے؛ جب بھی بولتے اریب بولتے۔

’’سو کے اٹھ گئے لاٹ صاحب! اب گھنٹہ بھر نہائیں گے اور مانگ پٹی جمائیں گے۔ امتحان سرپر ہیں!‘‘

’’کمانے کی فکر کیسے ہو گی! باپ ہے نا کولھو کے بیل کی طرح مشقت کرنے کے لیے۔‘‘ 

’’ایک ایک اینٹ جوڑ کے بنوایا گھرصاحبزادے بیچ کے نہ کھا گئے تو میرے نام کا کتا پال لینا!‘‘ اکثر وہ دادی کو مخاطب کر کے کہتے۔ ’’تم نے اور تمہاری بہو نے جی بھر کے بگاڑا ہے۔‘‘

اچھے نمبر لانے پر کون سا گلے لگایا۔ ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے!‘‘ بس یہی ستائش تھی ان کی۔ گریجویشن ختم ہوا تو بولے، ’’ہوں، اب ایل ایل بی جوائن کر لو۔ اپنا بھلا کرو گے میاں۔‘‘ لوگ کہتے تھے وہ بیٹے کو بہت چاہتے ہیں، ہمیشہ اس کے مستقبل کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ بھانجی کو سلیقہ شعار اور پڑھائی لکھائی میں جی لگانے والا دیکھ کر اس سے خاموشی سے رشتہ بھی طے کر لیا تھا… خوبصورت تو خیر تھی ہی۔

عارف نے جس وقت گھر چھوڑا، اس کا ایل ایل بی کا دوسرا سال مکمل نہیں ہوا تھا۔ شہر چھوٹا تو پڑھائی بھی چھوٹ گئی۔ اس نے چھوٹی موٹی نوکریاں کیں، بدقت تمام نا مکمل تعلیم مکمل کی۔ پھر اس نے نعیمہ کو بلا کر اس سے نکاح کر لیا۔ لوگوں نے ماں بیٹی کا محلے میں رہنا دوبھر کر رکھا تھا۔ دونوں عورتیں اس کے بُرے دنوں میں چٹان کی طرح سینہ سپر رہیں۔ دکھ کٹ گئے۔ خوش حالی آئی۔ بچے بھی ہوئے۔ لیکن نہ ابا نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ عارف نے پلٹ کر گھر اور کنبے کو پوچھا۔ شاید اماں یہ دکھ جھیل کر زندہ رہ گئی ہوتیں تو وہ واپس آنے کی سوچتا، یا کم از کم کچھ تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرتا۔ (اماں کے انتقال کی خبر پٹھانن کے ایک رشتے دار نے پٹھانن کو بھجوائی تھی۔)

اماں میکے سسرال دونوں طرف سے پکے وہابی مسلک کی تھیں، لیکن کچھ مہینے گزر گئے اور عارف کی خیر خبر نہیں ملی تو وہ درگاہوں پر جانے لگیں؛ حتیٰ کہ ابا کے دوست بابوشیام نرائن ایڈووکیٹ کی بی بی سیتا دیوی کے کہنے پر ایک بابا سے ملنے بھی گئیں اور ان کی دی ہوئی بھبھوت عارف کی تصویر کے نیچے دبا کر رکھی۔ بابا نے بتایا، ’’آپ کا بیٹا پورب کی طرف گیا ہے۔ وہ خیریت سے ہے اور خوش ہے۔ ایک دن ضرور واپس آئے گا۔‘‘ اماں نے بابا کو پانچ کلو مٹھائی کی ٹوکری دی جو انہوں نے فوراً غریبوں میں تقسیم کر دی۔ ایک مولوی صاحب نے چالیس دن تک عمل پڑھنے کا وعدہ کیا۔ ’’یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ آپ کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔‘‘ اماں کان کی بالیاں اتار کر مولوی صاحب کی بیٹی کے جہیز کے لیے دے آئیںاور ہمہ تن انتظار بن گئیں۔ پھر انتظار بلڈ پریشر بن کر ان کی رگوں میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ ایک دن دل کا دورہ پڑنے سے وہ چٹ پٹ ختم ہو گئیں۔ ابا ان کے سامنے کبھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر ٹہلتے نہیں تھے۔نیند اڑ چکی تھی لیکن سونے کا بہانہ کیے پڑے رہتے۔ اماں کے جان کے بعد کسی کا پردہ نہیں رہا، اکثر راتیں ٹہل ٹہل کے گزرتیں۔

تینوں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں۔ پھر عارف کے بعد والے سب سے چھوٹے آصف کی بھی۔ سب پھر پھر اڑتے چلے گئے۔ سبھی نے ابا کو اپنے ہاں بلا کے رکھنا چاہا۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ انہوں نے کسی سے نہیں بتایا کہ جب اماں نے کہا تھا کہ مولوی صاحب ور مونی بابا دونوں نے کہا ہے کہ ایک دن وہ ضرور واپس آئے گا تو انہوں نے اماں کو بڑی زور سے ڈپٹ دیا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی سے یہ بھی نہیں کہا کہ اگر واقعی عارف آگیا تو؟ باہر تالا لگا دیکھ کے لوٹ نہیں جائے گا کیا؟ ان کے لیے محلے کی بڑی بی کافی تھیں۔ دونوں وقت کی روٹی ڈال دیتیں۔ ان کا بیٹا کپڑے دھو جاتا۔ جب وہ زیادہ بوڑھے ہو گئے تو دو لوٹا پانی ڈال کے دوسرے تیسرے نہلا بھی دیتا۔ وقت اور دل کی مار سے پٹے، آم کی کھٹائی جیسے، سوکھی مچھلی جیسے ابا کے لیے صرف دو لوٹے اور دس منٹ ہی تو درکار تھے۔ وہ کبھی کہیں نہیں گئے۔ جس کا جی چاہا وہ ملنے یہیں آ گیا۔ پھر یہ ملنے ملانے کے سلسلے بہت کم ہو گئے۔ وقت اور فاصلوں اور مصروفیات کی دھول کی پرتیں موٹی ہونے لگیں۔ ابا اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے: ’’میرے دو بیٹے تھے… میرے دو بیٹے تھے…‘‘

عارف کے شانے تھرتھرانے لگے۔ باسٹھ سالہ بوڑھا آنسوؤں پر قابو پانے کی بے پناہ کوشش میں جسم پر قابو کھو کر دھب سے وہیں بیٹھ گیا، ابا کی بغل میں، ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے رکھے۔

’’عارف کی ماں…‘‘ ابا اپنے آپ سے بولے، ’’وہ آ گیا ہے۔ مولوی صاحب نے صحیح کہا تھا اور مونی بابا نے بھی۔‘‘ انہوں نے عارف کو اپنی استخوانی انگلیوں سے ٹٹول کر دیکھا۔ چہرہ قریب لا کر گدلی آنکھوں کی دھندلاتی ہوئی روشنی میں اس کے چہرے کو دل میں اتارنے کی کوشش کی۔ یہ روشنی انہوں نے بچا کر رکھی تھی۔ ختم ہو گئی اور وہ آ گیا تو وہ اسے کیسے دیکھ پائیں گے؟ وہ مخبوط الحواس ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اتنے حواس بچا کر رکھے تھے کہ اس کے کنبے کے افراد ،اس کی زندگی، اس کے کسب کے بارے میں پوچھ سکیں اور یہ جان کر کہ اس کی زندگی اچھی گزری ہے اور اس کی اولاد بھی اچھی زندگی گزار رہی ہے، طمانیت محسوس کر سکیں۔ ان کی خشک، استخوانی انگلیوں میں اتنا لمس بھی بچارہ گیا تھا کہ وہ اسے بار بار چھو کر اس کے وجود کا احساس کر سکیں اور خود کو یقین دلائیں کہ وہ گوشت پوست کے بنے جسم کی صورت ایک بار ان کے پاس واپس آیا ہے… وہ واہمہ نہیںہے۔

 سب سے بڑی بات یہ کہ بڑھاپے سے سکڑتے دماغ اور سکڑتے دماغ کے سبب پیدا ہونے والے نسیان کے باوجود انہوں نے کہیں کچھ یادیں بڑے جتن سے اٹھا کررکھی ہوئی تھیں۔بڑی بی آئیں تو انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے گوشت کے لیے پیسے نکال کر دیے اور جگ رام داس حلوائی کے ہاں سے بالائی کا دونا بھی لانے کو کہا۔ کوئی عارف کے اندرز ور سے رو اٹھا۔ اتنے برسوں کے بعد ابا کو یاد تھا کہ عارف بالائی بہت شوق سے کھاتا تھا اور کھانے میں گوشت نہ ہو تو ہنگامہ کر دیتا ہے۔ اب ان چیزوں کا مکمل پرہیز ہو چکا تھا لیکن اس نے اس کے متعلق ایک لفظ منھ سے نکالے بغیر بھرپور کھانا کھایا۔ ابا تو صرف پرول کے شوربے میں روٹی کا چھلکا ڈبو کر کھاتے رہے، اس کا منھ تکتے رہے اورشوربے میں سنی انگلیوں سے کبھی اس کی پشت، کبھی چہرے کبھی بازو چھوتے رہے۔

کھانے کے بعد اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے رکھے اونگھنے لگے۔ بڑی بی پرانا گدا جھاڑ کے بستر لگانے لگیں۔

’’میرا بستر الگ مت لگائیے۔ میں ابا کے پاس سوؤں گا، تخت پہ۔‘‘

’’اے ہے میاں، تو شک تو لگا دوں۔‘‘

ابا صرف دری پر سوتے تھے۔

’’میں یہیں، ایسے ہی سو جاؤں گا، انہیں ڈسٹرب مت کرئیے۔‘‘ بڑی بی گدا واپس رکھ کے مُنڈیا ہلاتی چلی گئیں۔

تخت پر بیٹھ کر عارف نے ابا کو ٹھیک سے لٹا دیا، پھر دیوار سے پیٹھ ٹکائی اور پیر پھیلا کر آنکھیں موند لیں۔ اماں دروازے کے پاس چق اٹھائے کھڑی دھکا دے کر نکالے جاتے عارف کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ گھر میں مولوی صاحب گھوم رہے تھے اور ایک گورے چہرے پر قشقہ کھینچے پاکیزہ صورت والے مونی بابا بھی، جو لوگوں کو امیدوں پر زندہ رکھا کرتے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی گیا وقت لوٹا نے کا اہل نہیں تھا۔

عارف کو بیٹھے بیٹھے ہی نیند آ گئی۔

اس کی آنکھ کھلی تو محلے کی مسجد میں فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ ابا کا بازو اس کے کاندھے پر رکھا ہوا تھا اور گردن بے ڈھب طریقے سے ٹیڑھی ہو رہی تھی اس نے ہولے سے اسے ہٹایا تو ابا کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ سراسیمہ ہو کر اس نے سر سیدھا کیا تو دیکھا، ان کی بے نور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ گئے وقت میں تحلیل ہو چکے تھے۔

٭٭٭