کورونا وائرس کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ان سے تو کسی کا موازنہ تو کس سے نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ کورونا کے باعث زندگی محروم ہوکر موت کی آغوش میں سما گئے ان لوگوں کو تو تاریخ بھی فراموش نہیں کرسکتی۔کورونا کے باعث مرنے والے انسان کے لواحقین بھی بڑی تکلیف سے گذرے ہیں۔ کیوں کہ اس سے بڑا درد اور کیا ہوسکتا ہے کہ کورونا کے باعث بچھڑنے والا پیارا زمین کی امانت بننے کے لیے پڑا رہا اور کسی عزیز کو اسے چھونے کی اجازت حاصل نہ ہو۔یہ درد بھی بہت بڑا ہے۔ اس درد کا بیان ہم کالم نگار نہیں کرسکتے۔کورونا کے باعث موت کی آغوش میں چلے جانے اور ان کے غم میں اب تک آنسو بہانے والے انسانوں کی تکلیف کا مقابلہ کرنا کسی کے لیے بھی بہت مشکل ہے مگر ان انسانوں کے بعد اگر کسی نے کورونا کا درد محسوس کیا ہے وہ لوگ کورونا سے متاثر ہونے والے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے نہ صرف تنہائی کے عذاب کو جھیلا مگر ان کے حصے میں ناقابل بیان جسمانی تکلیف بھی آئی۔ ان سے جس طرح دنیا نے کنارہ کرلیا اور انہوں نے بھی دنیا کے لیے اپنے آپ کو قید تنہائی کے سپرد کردیا یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کورونا کے باعث نہ صرف جسمانی اور سماجی درد جھیلا بلکہ انہوں نے جس نفسیاتی تکلیف کا سامنا کیا؛ اس تکلیف کو صرف وہ ہی بیان کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ کورونا کے باعث ہر روز ایک نئی تکلیف سے دوچار ہونا اور افواہوں کے طوفاں میں کبھی یہ خبر پڑھنا اور کبھی وہ خبر سننا؛ اس طرح زندگی اور موت کے دوراں جھولتے رہنا بہت اذیت ناک عمل ہے۔ یہ لوگ ہمارے ہیروز ہیں۔ان ہیروز کے ساتھ کوئٹہ میں جو سلو ک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی ہے۔ وہ ینگ ڈاکٹرز جو اپنی حفاظت کے لیے سامان طلب کر رہے تھے انہوں مجرموں کی طرو تشدد کا نشانہ بنا کر کورونا کے ماحول میں بھیڑ بکریوں کی طرح پولیس کی گاڑیوں میں ڈال کر تھانوں پر پھینگ دیا گیا وہ عمل انسانیت کے چہرے پر کسی تماچے سے کم نہیں تھا۔ یہ ظلم اور ستم صرف ان نوجوان ڈاکٹروں پر نہیں ہوا بلکہ ہم سب پر ہوا ہے۔کیوں کہ ہم کورونا کے حالات میں ایک دوسرے سے دور رہنے کے لیے مجبور تو ہیں مگر ہمارے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔مگر یہ تو ہمارے اپنے بچے تھے۔ ان کے مطالبات بھی غلط نہیں تھے۔ وہ کیا مانگ رہے تھے؟ حفاظتی کٹس؟ اتنا تو ان کا حق تھا مگر اس دور ناحق میں کس کو حق مل رہا ہے؟ کیا ہمارے مذدوروں اور محنت کشوں کو ان کا حق مل رہا ہے؟ کورونا وائرس کا شکار ہونے والے کے بعد اگر کورونا کے باعث سب سے زیادہ عذاب معاشرے کے کسی طبقے کے حصے میں آیا ہے وہ ہمارے ملک کے مذدور اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے پوری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت اور مشقت کی۔ وہ لوگ جو کروڑوں میں ہیں۔ وہ لوگ ساحل سمندر سے لیکر ہمالیہ پہاڑ کے دامن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو حکومت نے ایک جنبش قلم سے لاک ڈاؤن میں جکڑ دیا ہے مگر ان پیٹ کا دوزخ بھرنے کا انتظام اب تک کسی حکومت نے نہیں کیا۔ سندھ میں مراد علی شاہ اس بات کا کریڈٹ لینے کیلئے کوشاں ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے اور سب سے سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا مگر مراد علی شاہ سے کوئی پوچھے کہ انہوں نے سندھ کے غریب اور غیور محنت کش لوگوں کے لیے کیا کیا ہے؟ سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں نے کورونا کے نام پر رقم بھی کاٹی ہے مگر اب تک پورے سندھ میں بھوک کی وجہ سے لوگ چیخ رہے ہیں۔سندھ کے چیف منسٹر کی طرف سے لاک ڈاؤن کی تعریف صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جو پوری زندگی بھی اپنے گھر میں بیٹھ کر کھائیں تو کھا سکتے ہیں مگر ان ہم ان لوگوں کے بارے میں سوچ رہے جو لوگ روز کماتے تھے اور روز کھاتے تھے۔ اب ایک ماہ پورا ہونے کو ہے اور اب ان غریب محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ چھلک رہا ہے۔انکے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ کیا پکائیں؟ کیا کھائیں؟ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ یہ لوگ صرف غریب نہیں بلکہ غیرت مند بھی ہیں۔ یہ کسی کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں مگر اپنے بیمار بزرگوں اور بھوک سے بلکتے ہوئے معصوم بچوں کی وجہ سے یہ لوگ فقیر بن کر قطاروں میں کھڑے ہیں۔ راقم الحروف جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تب کورونا کی وجہ سے کراچی کی سنسان سڑکوں پر یہ مذدور نظر آتے ہیں جو ہاتھوں میں بیلچہ اور کدال اٹھائے ہماری طرح مجبور نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی خاموش آنکھوں میں صرف یہ سوال لہراتا نظر آتا ہے کہ یا ہمیں کام دو یا ہمیں کھانا دو۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ان غریب محنت کش انسانوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ نہ تو ان کو کھانا دے سکتے ہیں اور نہ روزگار۔ ا س حالت میں وہ لوگ کہاں جائیں؟ اس جرم میں ہمارے سابقہ حکمرانوں کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ کیوں کہ انہوں نے جس طرح ملکی خزانے کو لوٹا اور بحران کی گھڑی میں عوام کی مدد کرنے کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ اگر ان کے دل میں غریب عوام کے لیے اپنائیت کا احساس ہوتا تو وہ عوام کے لیے بحرانی فنڈ قائم کرتے ۔ مگر ان کو ان چیزوں سے کیا مطلب؟پاکستان کے ایک بہت بڑے اور نامور صحافی نے کہا ہے کہ جب میاں نواز شریف دوسری بار اقتدار میں آئے تو وہ ان سے ملنے گئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کی منت کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ نے ذاتی اور خاندانی طور پر اپنے آپ کو بہت مضبوط بنالیا ہے۔ اب آپ اپنا ذاتی بزنس چھوڑ کر اپنا تمام وقت ملک اور عوام کی خدمت میں صرف کریں۔ انہوں نے کہا ہے جب میاں نواز شریف نے ان کی بات سنی تو ہنس کر اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کے طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے کہا کہ اس وقت تو ہمیں اپنا کاروبار اوپر اٹھانے کے حالات میسر ہوئے ہیں۔ جب ہمارے حکمرانوں کی سوچ ایسی ہو تو پھر ہم اپنے آپ کو مایوسی کے بھنور میں کیوں نہ محسوس کریں؟گذشتہ روز جب یہ خبر آئی کہ کراچی کے سرمائے داروں نے کارخانے مسلسل بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں مذدروں کو ملازمت سے محروم کردیا ہے تب میرے دل میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ مچل اٹھے: ’’تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات!!‘‘