قائداعظم کے حالات میں تذکرہ ملتا ہے کہ لندن میں اپنے قیام کے ابتدائی زمانے میں جب ان میں مطالعے کا ذوق پیدا ہوا تو انہوں نے حکمرانوں‘ بادشاہوں اور سلاطین کی سوانح عمریوں کو پڑھنا شروع کیا اور ایک مدت تک اسی مطالعے میں غرق رہے۔ اس مطالعے کا ان کی شخصیت پر کیا اثر مرتب ہوا‘ اس پر کسی مورخ یا محقق نے روشنی نہیں ڈالی ہے۔ ایک اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ برعظیم کے جن عظیم لیڈروں نے اس خطے کی تاریخ پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ مثلاً مہاتما گاندھی‘ جواہر لعل نہرو‘ مولانا ابوالکلام آزاد ان شخصیات نے اپنی آپ بیتی قلم بند کی ہے۔گاندھی نے ’’حق کی تلاش‘‘ اور نہرو نے ’’میری کہانی‘‘ لیکن مولانا نے اپنی بیتی خود نہیں لکھی بلکہ دوسرے سوانح نگاروں سے یہ کام لیا۔ ’’مولانا آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور ’’آزادی ہند‘‘ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری منسٹر ہمایوں کبیر نے تحریر کی۔ یہ بھی ایک معما ہی ہے کہ مولانا آزاد جو کثیرالتصانیف مصنف تھے اور لکھنے لکھانے میں طاق تھے‘ انہوں نے اپنے حالات خود کیوں قلم بند نہیں کیے اور ذرا پیچھے چلیے۔ سرسید بھی زود نویس تھے۔ مسلمانوں کی اصلاح و تطہیر کا سارا کام قلم سے کیا۔ کتابیں بھی لکھیں اور صحیفہ نگاری بھی کی لیکن اپنی سوانح لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ فریضہ مولانا الطاف حسین حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ لکھ کر ادا کیا۔ خود مولانا حالی ایک غیر معمولی ذہن کے ادیب و انشا پرداز تھے۔ انہوں نے دوسروں کی سوانح تو لکھی لیکن اپنے آپ کو نظر انداز کیا۔ یہی معاملہ شبلی نعمانی کا رہا۔ ’’سیرۃ النعمان‘‘، ’’المامون‘‘ اور ’’الفاروق‘‘ جیسی شہرہ آفاق کتابوں کے مصنف نے اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اب ذرا اپنی تاریخ سے باہر نکلیے۔ ہٹلر نے اپنی سوانح لکھی لیکن مسولینی‘ لینن اور نپولین نے اپنی زندگی اور کامیابیوں کے رازوں پر سے پردہ نہیں اٹھایا۔ لینن اور کارل مارکس تو صاحب تصنیف تھے۔ چاہتے تو اپنی بابت لکھ سکتے تھے مگر نہیں لکھا۔ مائوزے تنگ معمار چین تھے‘ ایک زمانہ تھا جب ان کی لال کتاب ہر کمیونسٹ چینی کے ہاتھ میں ہوتی تھی جس کا پہلا فقرہ ہی یہ ہے کہ ’’انقلاب بندوق‘‘ کی نال سے جنم لیتا ہے لیکن مائو اور ان کے دست راست چواین لائی نے اپنی سوانح تحریر نہیں کی۔ جدید ترک کی بنا رکھنے والے مصطفی کمال اتاترک نے میرے علم کے مطابق کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لیکن اپنے خودنوشت حالات ضرور تحریر کئے جن کا اردو ترجمہ ’’نطق‘‘ کے عنوان سے ہو چکا ہے اور جس سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جاتا ہے کہ وہ مذہب دشمن تھے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ جن حکمرانوں یا مشاہیر نے اپنے حالات خود نہیں لکھے‘ ان کی بابت دوسروں نے لکھ دیا۔ قائداعظم ہی کی مثال لیجئے‘ انہوں نے اپنی سوانح نہ خود تحریر کی اور نہ کسی اور کو لکھوائی لیکن ان پر مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو سے کہیں زیادہ کتابیں لکھی گئیں اور اب تک لکھی جا رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان پر کتابیں ان کی زندگی ہی میں تصنیف کی جاے لگی تھیں۔ اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوگا کہ ا ن کی شخصیت پر پہلی کتاب بلبل ہند کے لقب سے مشہور ہونے والی ساحرہ سروجنی نائیڈو نے لکھی تھی اور لکھنؤ پیکٹ جو قائداعظم کی دانش مندی کا پہلا بڑا ثبوت بنا‘ اس کامیابی پر سروجنی نائیڈو ہی نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا تھا اور یہ مفہوم ان کی کتاب کے عنوان میں شامل تھا۔ فاطمہ جناح کی قائداعظم پر کتاب ’’مائی برادر‘‘ جو صرف تین ابواب پر مشتمل ہے کہ پوری کتاب مکمل ہی نہ ہو سکی اور کیوں مکمل نہ ہو سکی؟ کیا اس لیے کہ قائد کی زندگی کے ابتدائی دور کا یہی حصہ جو مورخین اور محققین کی رسائی سے باہر تھا؟ بیکٹر بولائتھو نے قائداعظم کی سوانح میں ان کے اس دور کے بارے میں جو کچھ مبالغے کے ساتھ لکھا تھا‘ اسی نے محترمہ فاطمہ جناح کو مجبور کیا کہ وہ اپنے عظیم بھائی کے ابتدائی اور آخری ایام کی بابت ان رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں تاکہ مستقبل میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’مائی برادر‘‘ کی اشاعت کے بعد قائد کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا‘ وہ اسی کتاب سے استفادہ کر کے لکھا گیا۔ چاہے وہ مستند سوانح نگار اسٹنلے والپرٹ کی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ ہو یا ہمارے تازہ کار محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’’قائداعظم کی ازدواجی زندگی‘‘ ہو۔ اس پر یاد آیا کہ قائد کی محبت اور ان کی شادیاں بھی محققوں کی دلچسپی کا موضوع رہی ہیں۔ اس موضوع پر بھی متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ قائد کی دوسری اہلیہ محترمہ رتی جناح کی شخصیت کا سحر بھی محققوں کو مجبور کرتا رہا ہے کہ ان کی شخصیت کا سراغ لگائیں اور یہ بتائیں کہ ان میں ایسی کیا بات تھی کہ قائداعظم جیسی ہستی ان کی خوبصورتی اور ذہانت کی اسیر ہوئی اور نوبت کورٹ میرج تک جا پہنچی۔ رتی جناح پر غالباً پہلی کتاب خواجہ رضی حیدر نے مرتب کی اور ابھی حال ہی میں قائد اور رتی جناح پر ایک ضخیم تصنیف جو نہایت تحقیق سے مرتب کی گئی ہے ’’مسٹر اینڈ مسز جناح‘ دی میرج دیٹ شوک انڈیا‘‘ ایک ہندوستانی محققہ شیلا ریڈی کا بے مثال تحقیقی کارنامہ ہے جس کا خیر سے اب اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کسی محقق کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ گاندھی یا نہرو کی بابت کوئی تحقیق کرے یا کتاب لکھے لیکن ہندوستان میں آج بھی قائداعظم کی زندگی وہاں کے محققوں کی تحقیق اور غوروفکر کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ جنتا پارٹی کے لیڈر جسونت سنگھ نے جب قائد کی سوانح لکھی اور اس میں تقسیم کا ذمہ دار قائداعظم کو نہیں کانگرس کی تنگ دلانہ پالیسیوں کو ٹھہرایا تو ہندو انتہا پسندوں نے اس کتاب کو سرعام نذر آتش کردیا اور جو کچھ جسونت سنگھ پر گزری‘ وہ کہانی الگ ہے۔ اب آئیے دوبارہ حکمرانوں کی خودنوشت سوانح عمریوں کی جانب۔ ہمارے ملک میں کسی حکمران کی جو آپ بیتی سب سے زیادہ مقبول ہوئی اور پڑھی گئی وہ صدر جنرل ایوب خان کی آپ بیتی ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ تھی جس کا اردو ترجمہ نہایت عمدہ ترجمہ نامور افسانہ نگار غلام عباس نے ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ معروف معنوں میں جنرل ایوب خان کی اس آپ بیتی کو خودنوشت سوانح عمری اس لیے کہنا درست نہ ہوگا کہ ایوب خان نے اپنے حالات الطاف گوہر سے گوش گزار کئے تھے اور انہوں نے ہی اسے اپنی شاندار ادبی انگریزی میں قلم بند کیا تھا۔ ایوب خان کے زوال کے بعد یہ کتاب تھوک کے حساب سے فٹ پاتوں پر آ گئی اور کوڑیوں کے مول بکی۔ دوسری آپ بیتی ہمارے ملک میں کسی حکمران کی بحث و مباحثے کا موضوع بنی تو وہ صدر جنرل مشرف کی آپ بیتی ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ تھی جس کا اردو ترجمہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا لیکن ترجمے سے ان حصوں کو نکال دیا گیا جو انگریزی کتاب کی اشاعت کے بعد جنرل صاحب کے لیے رسوائی اور تنازع کا باعث بنے۔ یہ کتاب بھی جنرل صاحب نے لکھوائی اور لکھنے والے کوئی اور نہیں الطاف گوہر کے فرزند جناب ہمایوں گوہر تھے۔ بیٹے نے باپ کی پیروی کی جیسے ایک جنرل نے دوسرے جنرل کی تقلید کی تھی۔ اب حیرت کا ایک اور مقام‘ صدر جنرل ضیاء الحق جنہوں نے گیارہ سال تک بلاشرکت غیرے حکومت کی اور جو مطالعے کے بہت شوقین تھے۔ انہوں نے بھی اپنی سوانح لکھوانے کی ’’بدعت‘‘ کو پسند نہیں کیا۔ ان کے ’’ممدوح‘‘ (کہ ایک زمانے میں ممدوح ہی تھے۔) ذوالفقار علی بھٹو جو کئی کتابوں کے مصنف تھے اور ہمارے حکمرانوں میں سب سے زیادہ وسیع المطالعہ تھے‘ اپنی سوانح قلم بند نہیں کی لیکن ان کی ذہین بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے حالات ’’دختر مشرق‘‘ میں تفصیل سے لکھ ڈالے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی پڑھنے پڑھانے کے شوقین ہیں اور اپنے حالات کتابی صورت میں محفوظ کر چکے ہیں۔ اس موضوع پر ابھی کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یار زندہ صحبت باقی۔