کچھ اور ہو نہ ہو، پی ڈی ایم نے ایسے گروہوں کو کہ جن کے مفادات سرحد پار وابستہ ہیں، زہر آلود تقریروں کے لئے مرکزی پلیٹ فارم مہّیا کر دیا ہے۔وزیرِاعظم عمران خان نے اداروں کے خلاف تضحیک آمیز بیان بازی پر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کا حکم دیا تو وزیرِ داخلہ نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی اور بے سبب الزام تراشی کرنے والے جے یو آئی کے مفتی کفایت اللہ کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ درج کئے جانے کا عندیہ ظاہر کیا ۔اگلے ہی روز ،ہمہ وقت برہم رہنے والی مسلم لیگ ن کی سینئرنائب صدر نے وزیر اعظم کو اس باب میں آڑے ہاتھو ں لیا ہے۔خاتون کا کہنا ہے کہ وہ یہ تو نہیں جانتیں کہ مولوی کفایت اللہ کون ہے ، تاہم انہوں نے تنبیہ کی کہ مذکورہ شخص پر محض اس بنا پر مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے فوج کے خلاف توہین آمیز بیان بازی کی ہے تو وہ درجنوں ویڈیوز جن میں خود عمران خان یہی کام کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ، عدالت میں پیش کرتے ہوئے یہ مطالبہ کریں گی کہ اگر کسی کو سزا دی جانی مقصود ہے تو سب سے پہلے عمران خان کو دی جائے۔ مولوی کفایت اللہ کو اگر مریم صاحبہ واقعی نہیں جانتیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اداروں کے خلاف بد زبانی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانونی کاروائی کی راہ میں وہ ہمیشہ اسی عزم کے ساتھ اس وقت تک مزاحمت کیا کریں گی کہ جب تک عمران خان کو سزا نہیں ہو جاتی۔ درپیش صورت حال میں میرے لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مریم نواز ،وزیرِ اعظم عمران خان سے زیادہ نفرت کرتی ہیں کہ افواج پاکستان سے! اپنے اس خطاب کے دوران خاتون نے ہمیں ہمارے ادارے کے بارے میں جو حوصلہ افزاء اطلاع بہم پہنچائی ہے وہ یہ ہے کہ پاک فوج کے اندر سب لوگ بُرے نہیں ہیں۔ یعنی بہت سے اچھے بھی ہیں کہ جو اُن کے بقول صرف تنخواہ پر گزاراکرتے ہیں۔ ملک میں چند محکمے ایسے ہیں کہ جو بوجہ عوام میں رشوت ستانی اور بد عنوانی کی بنا پر جانے جاتے ہیں۔جب لوگ دل جوئی پر اترتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اِن اداروں میں سبھی ایک جیسے نہیں، کچھ لوگ اچھے بھی ہیں۔ ہم جیسے کہ اپنی ساری زندگی پاک فوج کا حصہ ہونے پر جنہیں فخر رہا، ہمیشہ اپنے ادارے کو شاندار روایات کا امین سمجھتے رہے ہیں۔ پاک فوج میں شمولیت کو پیشے سے بڑھ کر وجہ افتخار سمجھتے رہے ۔پیشہ تو کیا ایک طرزِ زندگی جانتے رہے ۔ نہیں معلوم تھا کہ ایک دن ادارے کو نیک چلنی کا سرٹیفیکیٹ وہ خاتون عطا کریں گی جو خود بد عنوانی کے مقدمات میں مطلوب ، سزا یافتہ اور آج کل ضمانت پر ہیں۔ صرف فوج ہی نہیں، پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں بھی محترمہ کے خیالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں موجود دو چار ’اچھے‘ ججوں کا تذکر ہ وہ اکثر کرتی ہیں۔ تاہم اپنے زیرِ نظر خطاب میںجج ارشد ملک مرحوم کا ذکر انہوں نے جس پیرائے میں کیا وہ بے حد افسوس ناک ہے۔جج صاحب اپنا موقف حلفاََ قلم بند کروا چکے۔ اپنے اس بیان میں مرتے دم تک انہوں نے ایک حرف تبدیل نہیں کیا۔ اب جب کہ وہ بے سروپا الزامات کا جواب دینے کیلئے اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، مریم نواز کو یوں جلسوں میں مرحوم پر دشنام طرازی سے گریز کرنا چاہیئے۔لازم ہے کہ اس معاملے کی پوری تحقیقات کی جائیں، تاکہ جج صاحب کی بلیک میلنگ میں ملوث نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جا سکے ۔ اپنے خطاب میںاگر چہ محترمہ نے کہا تو نہیں، لیکن ضرور صاحبزادی کو جملہ باز اتالیق نے یہی بتا یا ہوگا کہ سرحدوں پر رات دن پہرہ دینے والوں کو آخر تنخواہ کس کام کی دی جاتی ہے۔ جبھی تو فوجیوں کی تنخواہوں کا تذکرہ وہ بار بار کرتی ہیں۔کئیبرسپہلے کسی ایک چھائونی میں افسروں سے معمول کے خطاب کے لئے آرمی چیف آئے۔بتا یا جاتا ہے کہ سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو حاضرین میں سے کسی ایکنے گلہ کیا کہ مہینے بھر کی تنخواہ دس دن چلتی ہے۔ چیف نے سنا اور بولے، ملک میں حکومت کی اپیل پر قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کے لئے پاکستانی بیبیاں اپنے کانوں کی بالیاں بینکوں کے حوالے کررہی ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ وزیرِ اعظم سے تنخواہوں میں اضافے کی بات کی جائے۔ برسوں بعد سال 1996 ء میں کوئٹہ میں آرمی چیف ہی کے خطاب کے بعد ایک افسرنے کچھ ایسی ہی شکایت جنرل جہانگیر کرامت کے بھی گوش گزار کی تھی۔مالی آسودگی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ہم نے آج تک نہیں سنا کہ سیاچن پر کھڑے کسی افسریا سپاہی نے یہ کہہ کر اپنا مورچہ چھوڑ دیا ہو کہ تنخواہ نا کافی ہے۔ہم خاتون کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں ، تاہم انہیں بھی یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے سیاچن پر کھڑے ہونے کا عزم تنخواہ میں اضافے سے بڑھ کراس جذبے سے نمو پاتا ہے جو صرف اسی ادارے کا خاصہ ہے۔ میری دانست میں خاتون کو پاک فوج کے ایسے معاملات پر یو ں جلسے جلسوں میں جملہ بازی سے باز رہنا چاہئیے۔ اپنی قیادت سے متعلق افسروں اور جوانوں کو بد گمان کرنے کی ایسی کسی کوشش کو دشمن کے’ سائیکولوجیکل وارفیئر‘ کا باقاعدہ حصہ سمجھا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے جو خیرہ کن کامیابی حاصل کی، افغانستان کی جنگ میں اربوں ڈالرز جھونک کر اب پسپائی پر آمادہ سپر پاوراسے حسرت سے دیکھتی ہے۔ کامیابی کے پیچھے ہزاروں پاکستانیوں کے خون کا خراج ہے۔خاتون جب ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کے والد نے فوج کو اربوں روپے دے کر کہا کہ جائو لڑو ، تو اس ساہو کارانہ سوچ کے پیچھے بھی ان کی وہی ذہنیت کار فرما نظر آتی ہے کہ جو انہیں ورثے میں ملی ہے۔آزادی پانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے کن اجزاء کی ضرورت در پیش آتی ہے ، برطانوی وزیرِ اعظم کواس کا پورا ادراک تھا۔ لندن پر جرمن طیاروں کی بمباری کے بعد ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے چرچل نے قوم کو بتایا تھا کہ پیش کرنے کے لئے اس کے پاس خون، پسینے اور مشّقت کے سواکچھ نہیںہے ۔ سفاک ترین دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے والی افواج کے افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کو یوں روپوں میںتولنا ایک ایسے فرد کو زیب نہیں دیتا جو ایک دن ملکی اداروں کی قیادت کا خواب دیکھتا ہو۔ مسلم لیگ ن کا ووٹر، روایتی طور پر پاکستان اور پاکستان کے اداروں سے محبت کرتا ہے۔ پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل چند اشحاص کی جانب سے پنجابیوں کی بے جا تضحیک اور قومی اداروں کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کی جو حوصلہ افزائی باپ بیٹی کر رہے ہیں، ہر گز باعثِ خیر نہیں۔اِسے ان کی کم عقلی کہا جائے یا حد سے بڑھا ہوا غم وغصّہ، مریم نواز آئے روز کی تقریروں کے ذریعے قومی اداروں کے وقار کو ہی نہیں،خود مسلم لیگ ن کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سنجیدہ ارکان سے میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ کسی نہ کسی دور میںسرحدوں کی پاسبانی پر مامور رہنے والے ہزاروں شہیدوں کے ورثا، لاکھوں غازیوں اور ان کے خاندانوں کے احساسات سے کچھ نہ کچھ آگاہی ضروررکھتے ہوں گے ۔