ہری پور سے ہی ریستورانوں، ڈھابوں اور کریانے کی دکانیں سی پیک کے نام سے منسوب ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور یہ سلسلہ چین کی سرحد کے قریب سوست تک چلتا ہے۔ سوست سے خنجراب تک کی پٹی میں یہ نام اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ قطعہ نیشنل پارک کے لیے منسوب ہے۔ سی پیک منصوبے کا کرشمہ ہے کہ وہ پاکستان بھر سے سیاحوں کو بھی اپنی طرف کھینچ رہاہے۔ قافلے کراچی، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے نکلتے ہیں اور خنجر اب پر جا کر دم لیتے ہیں۔ پاکستان میں اندرونی سیاحت کے بڑھتے ہوئے رجحان میں سلامتی کی بہتر ہوتی ہوئی صورتحال ، میڈیا کی وجہ سے تفریح کے بدلتے رجحانات ، پھلتا پھولتا متوسط طبقہ اور مواصلات کی بہتر ہوتی سہولیات کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ سی پیک اس میں معاشی حالات میں بہتری کا ایک اہم اشاریہ ہے۔ چھٹیوں میں سیاح صرف قراقرم ہائی وے یا شاہراہ ریشم پر ہی گامزن نظر نہیں آتے بلکہ پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے سیاحتی مراکز بھی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ عید اور تہواروں پر سیاحتی اور تفریحی مقامات کے ارد گرد ٹریفک کی ابتر صورتحال سیاحتی سرگرمیوں اور ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سیاحت پاکستان کی معیشت کا اہم ستون بن سکتا ہے ، اگرچہ اندرونی سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سخت ویزہ پالیسی، سیاحتی سہولیات کا فقدان اور پاکستان کا عالمی سطح پر تاثر اہم وجوھات ہیں ، اس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی نا قص سیاحتی پالیسی اور غیر ضروری سیکورٹی خدشات بھی بیرونی سیاحت کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ اگرچہ سی پیک کے منصوبوں میں سیاحت کے شعبے میں تعاون بھی شامل ہے لیکن اس میں ابھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ جنوبی اور وسط ایشیا کے کئی ممالک کی سیاحت کو چینی سیاحوں نے سہارہ دیا ہے اور خصو صا جب معاشی بحران کے عرصے میں مغربی سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ لے دے کے پاکستان کی غیر ملکی سیاحت مذہبی سیا حت پر کھڑی ہے اس میں بھی سکھ یاتریوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ کوہ پیمائی جو خصوصی سیاحت کے زمرے میں آتا ہے یہ شعبہ بھی اپنی اصل استعداد سے بہت کم پر کھڑا ہے۔ غیر ملکی سیاحت تو ایک طرف ،پاکستان کا سیاحتی ڈھانچہ مقامی سیاحت کی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہے۔ گذشتہ برس کے سیزن میں 25 لاکھ سیاحوں نے شمالی علاقہ جات کا رخ کیا تھا اور گلگت بلتستان کی حکومت کو ہنگامی بنا دوں پر خیموں کا انتظام کرنا پڑا تھا۔ اس سال یہ تعداد دگنی ہونے کی توقع ہے۔ اس عید پر جب سبوخ سید، دی نیشن کے یار باش دوست عمران مختار ، اور آسٹریلیا نیشنل یونی ورسٹی کے معین چیمہ کے ساتھ شمالی علاقوں کی طرف گامزن ہوئے تو ناران تک ٹریفک جام سے لگتا تھا کہ لاکھوں کے قافلے ایک جنون کے سفر پر نکلے ہیں۔ کہیں اتنڑ ڈانس ہے، گاتے جھومتے لڑکے بالے، انوکھے انداز میں سلفیاں لیتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی سیاحی مقامات جیسا کہ مری اور اس کے مضافات، کشمیر ،سوات، چترال اور خصوصا گلگت بلتستان تک سڑکوں کے نظام میں قدرے بہتری ہے۔ سیاجوں کے پاس اب زیادہ بہتر متبادل موجود ہیں۔ سیاحت کو نقصان پہچانے میں روایتی سیاحتی مراکز کے ذمہ داران کے غیر کاروباری رویوں کا بھی عمل دخل ہے۔ مری کے بائیکاٹ کی مہم کے پیچھے بھی یہی وجہ کار فر ما تھی۔ مری کے ہوٹلوں، ریستورانوں کا تیزی سے گرتاہوا معیار اور سیاحوں سے بدتمیزی کے بڑھتے واقعات نے کوہ مری کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ پھیلتی ہوئی ہائوسنگ سکیموں سے لگتا ہے کہ مری اسلام آباد کی مضافاتی بستی رہ جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اندرونی سیاحت میں اضافے کے باعث بہتر سیاحتی سہولیات کی ضرورت بڑھی ہے اور ظاہر ہے اس سے معیشت میں بڑھو تری کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سیا حوں کے رویوں میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان کے رویوں کے باعث سیا حتی مقامات اپنی کشش کھو سکتے ہیں اور ماحولیات کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلیں ، شاپر ، چپس کے پیکٹ سیاحت کے بدترین دشمن ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں پنجاب اور خصوصا لاہور کے سیاحوں کے متعلق مشہور ہے کہ یہ اپنے ساتھ کوڑے اور گندگی کا طوفان لاتے ہیں۔ دیو سائی کے پھولوں سے بھرے میدان ہوں ،خنجر اب کا نیشنل پارک یا ہنزہ کی دلکش وادیاں کوڑے اور گندگی پاکستانیوں کی صفائی پسندی اور شہری شعور کی گواہی دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے ہر نیشنل پارک اور اھم سیاحتی مقام پر آگاہی پیغامات کے علاوہ کوڑا ڈالنے کے لیے بیگ فراہم کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ واپسی پر وہ بیگ مخصوص پوائنٹس پر جمع کرائے جائیں لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی اس کا خیال نہیں رکھتا۔ اکثر لوگ اپنی گاڑیوں سے گند باہر پھینکتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ غریب نہیں ہوتے ، یہ گاڑیاں ایک ہزار سے تین ہزار سی سی کی ہوتی ہیں، جو گندگی پھینکنے سے منع کرنے پر ماحولیات اور وائلڈ لائف کے اہلکاروں سے جھگڑا کرتے ہیں اور انہیں معطل کروانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ٹریفک کے آداب سے بے بہرہ یہ لوگ روڈ حادثات کا سبب بھی بنتے ہیں۔ آسٹلریلین معین چیمہ کے لیے وہ منظر حیران کن تھا جب بیسر کے مقام پر غریب بکر وال بچوں کو بڑی گاڑیوں والوں کے پھیلائے ہوئے کوڑے کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالتے دیکھا- لگتا ہے کہ حکومتوں کو اس سلسلے میں سخت اقدامات کرنے پڑیں گے۔ بھاری جرمانے اور جگہ جگہ تنبیہی ل پیغامات نمایاں کرنا ہونگے۔ ایسے مقامات پر پلاسٹک کی بوتلوں کے مشروبات اور چپس کے پیکٹوں پر مکمل پابندی عائد کرنا ہو گی یا اس کی فروخت کے لیے مخصو ص مقامات پر سٹال بنانا ہونگے جو وہیں استعمال کیے جائیں۔اگر ایسے اقدامات نہ کیے گے تو سیاحتی مقامات بہت جلد ہی بیرونی سیاحت کو متوجہ کرنے سے پہلے ہی اپنی کشش کھو دینگے۔ ان میں سے کئی اور اہم سیاحتی مقامات سی پیک روٹ کے ساتھ واقع ہیں۔ ذہن میں لائیے کہ اگر کوڑا اور گندگی ایسے ہی پھلتے رہے تو سی پیک کیسی لگے گی؟ ایسے سیاحتی مقامات پاکستان اور پاکستانیوں کی شان میں کیا چار چاند لگائیں گے ؟