لودھراں سے دوستوں نے تربوز کی فصل کی تصویریں بھیجی ہیںجہاں جھاڑویوں کے بیچوں بیچ آدھے تیار ہوئے تربوز لا وارث پڑے ہیں ، پورے جنوبی پنجاب میں آم کی فصل شدید متاثر ہے ، درختوں سے پتے غائب ہیں صرف جھاڑیاں بچی ہیں یا کچے آم کے بچے جو اَب بڑے نہیں ہوںگے۔بھکر میں چنے کی فصل کابرا حال بھی دیکھنے کو ملا ہے۔بیشتر جگہوں پر چارے کی فصل یوں تباہ ہو چکی ہے جیسے تھی ہی نہیں۔ کپاس کی فصل کسانوں کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوئی ہے ۔خوف کا یہ عالم ہے کہ ساہیوال سے ٹڈی دل کے گزرنے کی اطلاع ملے تو اوکاڑہ اور دیپالپورمیں کسانوں کی نیند اُڑ جاتی ہے ۔رحیم یار خان سے گزرتی ہے تو ڈیرہ غازی خان میں کپاس کے کاشتکار دعائیں پڑھنے لگتے ہیں۔ٹڈی دل نے 65 فیصد پاکستانیوں کی نیند حرام کر رکھی ہے ۔ کسانوںپر خوف کا عالم ہے ، سال بھر کی کمائی ٹڈیوں کے رحم و کرم پر ہے ، تدارک میں دیر ہو چکی۔ وہ جو پہلے کرنا تھا وہ ہوا نہیں، جو اَب کیا جا رہا ہے ،بے اثر ہے۔ میں نے 23جنوری کے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ٹڈیوں کے دل نے صحرائوں کی ریت میں انڈے دے دیے ہیں۔کسانوں کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا اگر ان انڈوں کو بروقت تلف نہ کیا گیا تو چند ماہ میں نئی اور توانا فوج تیار ہو جائے گی۔ یہ فوج موجودہ فوج سے 50 سے 80 گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایک ایک ٹڈی سو سو انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عرض کیا تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر ٹڈی کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ فوڈ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ معیشت پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تب اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور پھر فروری میں کورونا کے آنے کے بعد توخاموشی سے تیار ہونے والی ٹڈی کی نئی نسل بالکل نظر انداز ہو گئی ۔ اب یہ نئی نسل پاکستان کی فضائوں میں آفت بن کر موجود ہے۔ جہاں سے گزرتی ہے یوں تباہی مچاتی ہے کہ کیا ہلاکو خان کی فوج مچاتی ہو گی۔ٹُنڈ مُنڈ سی جھاڑیاں باقی بچتی ہیں اور پتے غائب۔ پتے نہیں بچیں گے تو کیا خاک پھل لگے گا۔ ٹڈی دل کی اس آفت سے پاکستان کی معیشت کو 600 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ زراعت جو جی ڈی پی کا 19 فیصد ہے ، شدید متاثر ہونے کا امکان ہے جس سے مجموعی جی ڈی پی پر شدید برا اثر پڑے گا ۔ تحریک انصاف کی حکومت پر یوں بھی بہت دبائو ہے کہ وہ اسحق ڈار کی چھوڑی ہوئی جی ڈی پی کو برقرار نہ رکھ سکی ۔ نہ صرف برقرار نہ رکھ سکی بلکہ اسے اس کے تقریبا نصف تک لے آئی ۔یقینا حکومت جانتی ہے کہ ہماری تقریبا 65 فیصدآبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زراعت سے وابستہ ہے ، ٹڈی دل کے حملوں سے خراب ہونے والی فصل کا اثر صرف کسان پر نہیں پڑے گا۔ وہ مزدور جو دیہاڑی پر کھیتوں میں کام کرتے ہیں، وہ سیلز مین جو کھاد اور ادویا بیچتے ہیں۔ وہ چھوٹا ٹرانسپورٹر جو فصلوں کا پھل منڈیوں تک لے جاتا ہے، وہ آڑھتی جو کسان اور دکاندار کے درمیان کام کرتا ہے ، پھر وہ منڈیوں میں کام کرنے والا مزدور، گھریلو صارف، سب کے سب ٹڈی دل کی تباہی سے متاثر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ لودھراں ، جلال پور پیروالا، وہاڑی، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، تھرپارکراور اندرون سندھ کے بہت سے اضلاع ٹڈی کے حملے کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جس سے کپاس ، دھان، مکئی،آم، چنے ، دالیں اور چارے کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ان علاقوں میں آپ چلے جائیں تو لگتا ہے کوئی آفت گزر چکی ہے ، کورونا سے بھی زیادہ خوفناک، زلزلے اور سیلاب سے بھی زیادہ تباہ کن۔ کسانوں اور ان سے جڑے مزدوروں کے چہرے یوں لٹکے ہیں کہ مرگ کا سماں ہے ۔ ٹڈی دل کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندوں نے ہمارے لیے آواز اٹھائی ، حالات کی سنگینی کا بروقت ادراک کیا، نہ ہی حکومت اور محکمہ زراعت کو ہوش دلایا۔ خسرو بختار، زرتاج گل، طارق بشیر چیمہ، میاں شفیق آرائیں اور کتنے ہی منتخب نمائندوں سے لوگوں ناراض نظر آتے ہیں۔ خود وزیراعلی پنجاب کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے لیکن فکر مندی کے آثار دکھائی نہیں دیے۔ سپرے ہو رہا ہے لیکن اب اس کا اثر نہیں ہو رہا۔ ٹڈی دل دن میں سفر کرتا اور رات میں بیٹھتا ہے، دس منٹ میں فصل سمیٹ لیتا ہے۔ جہاں یہ بیٹھتا ہے وہاں سپرے کیا جاتا ہے ، جو دس فیصد سے زیادہ ٹڈی کو مارنے میں کامیاب نہیں ہو پاتااور ٹڈی دوسری جگہ کے لیے اڑان بھر لیتی ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے ،یہ تو ظاہر ہے کہ ٹڈی کے قیام کا پہلے سے علم نہیں ہوتا ، جہاں یہ بیٹھنے کا ارادہ کر لے وہاں کے لیے ٹیمیں روانہ کی جاتی ہیں ، جب تک ٹیمیں وہاں پہنچتی ہیں فصل کا صفایا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے پریشان کسانوں کے پاس ایک ہی حل بچتا ہے کہ وہ محکمہ زراعت سے رابطہ کریںاور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا جاتا ہے۔ جواب ملتا ہے کہ ہمارے پاس اس ٹڈی کا کوئی حل نہیں ، ایک ہی حل ہے کہ ٹڈی کو فصل پر بیٹھنے نہ دیا جائے ۔محکمہ زراعت کے ماہرین کسانوں کو مشورہ دیتے ہیں جب ٹڈی آپ کی فصل کی طرف بڑھے تو زور زور سے ڈھول بجائیں، گھر سے برتن لے آئیں انہیں آپس میں ٹکرا کرشور پیدا کریں اور ٹڈی کو اپنی فصل پر بیٹھنے نہ دیں۔ اگر یہی ایک حل بچا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ محکمہ زراعت والوں کو ایک ایک ڈھول لے کر دے دیں ، اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے گلے میں بھی ایک ایک ڈھول لٹکا دیں ، جسے یہ سب کھیتوں میں کھڑے ہو کر بچاتے رہیں ، ورنہ ایسا نہ ہو کہ اگلے انتخابات میں عوام انہی کا ڈھول بجا دیں۔