عمر دراز مروت بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، یوںپروفیسررحمت اللہ درد جیسے مایہ ناز غزل گو شاعرکی رحلت کے بعد لکی مروت ایک اور بامروت شاعر سے محروم ہوا۔ چنددن پہلے سوشل میڈیا پرعمردراز مروت کی علالت کی خبر اور تصویریں گردش میں تھیں ۔پھر جمعرات کے دن جناب اسیر منگل نے سوشل میڈیا پر ان کی آپریشن سے متعلق خبر دی اور ساتھ ساتھ ان کی صحت یابی کیلئے احبا ب سے دعائوں کی التماس کی تھی۔ یقیناًدوستوں نے کی اُن کی درازی ِ عمرکیلئے دعائیں مانگی ہونگی لیکن شام کو آنے والی خبردل کو دکھی کردینے والی تھی ۔یہ خبر عمردرازمروت کی موت اور کلمات ترجیع ( اناللہ وانا الیہ راجعون) پر مشتمل تھی۔عمر دراز مروت کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت سے تھاجنہوں نے تختی خیل کے گاوں شاتورہ میں 1958ء میں آنکھ کھولی تھی ۔اگرچہ باقاعدہ تعلیم انہوں نے محض تیسری جماعت تک حاصل کی تھی لیکن ذوقِ ادب نے ان کو مالا مال کیا تھا۔وہ نہ صرف پشتو زبان کے بہترین اور کامیاب شاعر تھے بلکہ زندگی میں ایک اچھا انسان بننے کا بھی کماحقہ ثبوت دیا۔بلندقامت اور سر پر ہمیشہ روایتی پگڑی باندھنے والے یہ شاعر بلا کا کسرِ نفس اور نہایت ملنسار انسان تھے ۔ وہ دوسروں کے بارے میں جس طرح ہمہ وقت محتاط رہتے تھے اسی طرح خود بھی ایک نرم دل اور زود رنج طبع کے مالک تھے اور ببانگ دہل یہ کہتے رہے کہ : زہ پہ وڑہ خبرہ مرم عمر دراز مروتہ! زما د قتل ڈیر سوچونہ دی یاران نہ کوی ’’عمردراز مروت کی موت کیلئے ایک چھوٹی سی کجی بات بھی کافی ہے ، یوں ان کے دوست ان کوقتل کرنے کیلئے گوناگوں حربے استعمال نہ کریں‘‘۔ عمردراز مروت سے ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ جناب اسیر منگل اور ماہرتعلیم جناب نصراللہ بابازوئے کے ہمراہ ایک علمی کام کے سلسلے میں جنوبی پختونخوا کے دورے پر تھے۔ ان سے یہ ملاقات اور بعد میں بیٹھک پروفیسر داود بخت مندوخیل ، نصروگل مندوخیل، عبدالستار سرباز م سوہیل حریفال اور تمثیل ناصر کی معیت میں پچھلے سال ژوب کے ایک نجی بینک میں ہوئی۔اس نشست میں ایک دوسرے سے تعارف بھی ہوا اور ساتھ ساتھ شام تک خوب ادبی گپ شپ ہوئی۔ قارئین یقین کرلیںکہ اسی پہلی اور مختصر ملاقات میں ہم نے عمردراز مروت کواپنا ایک دیرینہ دوست بھی پایااور غضب کابامروت اور تکلفات سے مبرا شاعر بھی ۔ حقیقت میں وہ ایک درویش شاعر تھے اور نہایت تنگدستی کی حالت میں بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی پشتو ادب کی خدمت وترویج اور انسانوں کے دل جیتنے میں صرف کی ۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے ہاں اکثر ادیب اور شاعر حضرات بسا اوقات خود کو بنانے اور سجانے میں لگے رہتے ہیں لیکن عمردراز مروت نے دوسروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گوکہ عمردراز مروت کی مروت نے ان کو فقط اپنی ذات تک محدود رہنے کی کبھی اجازت نہیں دی بلکہ اوروں کی معاونت میں بھی ہمیشہ برابر کے شریک رہے۔ ہم اگر ان کے اس مستحسن وصف کا اعتراف نہ بھی کریں تو ان کی وساطت سے چھپنے والی پشتو شاعری اور نثر کی سو کے قریب کتابیں اس بات کی دلیل ہے کہ عمر دراز مروت خدمت پر یقین کامل رکھتے تھے ۔اس کے علاوہ ان کی اپنی شاعری کے بھی اب تک چھ مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں جس میں ’’ پھول بغیرخار کے نہیں ہوتے ( گل بی خارہ نہ وی )، پتھر کی لکیر ( دکانڑی کرشہ )، مجمر، خیال کیلئے محنت ناگزیر ہے ( خیال محنت غواڑی ) اور حالات کی تاریکیاں( اندھیرے زمان کے ‘‘ شامل ہیں اورساتھ ساتھ ایک طویل عرصے سے ’’شیخ بدین ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلہ بھی چھاپ رہے تھے ، امید ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے احباب اس سلسلے کو بدستور جاری رکھ سکیں گے۔دل کی بات کہی جائے تو یہ دعویٰ بے محل نہیں ہوگا کہ عمردراز مروت شعر بھی کمال کالکھتے تھے ۔اور کمال شایدان کا یہ تھا کہ وہ شاعری میں نہایت سلیس اور تکلفات سے منزہ زبان کا استعمال کرتے تھے۔ بلاشبہ اسی سلاست اور روانی ہی کے وصف نے عمردرازکو ہر دلعزیز شاعر بنایا تھا اور وہاں پر سجنے والے ہر مشاعرے میں ان کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی تھی ۔ ان کی ناگہانی موت سے آج نہ صرف لکی مروت اور بنوں محروم ہوگئے بلکہ پورا پشتو ادب ایک مایہ ناز اور انسان دوست شاعر سے محروم ہوگیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم عمردراز مروت کو اپنے جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور انکے محروم خاندان کو صبر عطا کرے۔