’پنجاب کونسل آف دی آرٹس ‘ساہیوال ڈویژن کے زیر اہتمام چوتھی دو روزہ بین الاقوامی ’ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس‘ کا آغاز ہو ا‘یہ کانفرنس پاکستان کی چند اہم ادبی کانفرنسوں میں شمار ہوتی ہے۔۱۷ تا ۱۸ دسمبر کو منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی بنیادی اہمیت ہڑپہ کے کھنڈرات ہیں جو ساہیوال سے ۳۵ کلومیٹر مغرب کی طرف کھدائی کے دوران ملے تھے۔حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے تقریباً ۱۲۰۰ سو سال قبل لکھی جانے والی ہندوئوں کی کتاب ’رگ وید‘ سے اس شہر کی تاریخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔’رگ وید‘میں ایک شہر’ہری یوپیہ‘کے نام سے ملتا ہے جس کے بارے مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ ہڑپہ ہی کا سنسکرت نام ہے۔۱۹۲۱ء میں رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار دیکھے‘اس نے ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو اطلاع دی جنھوں نے یہاں کھدائی کاکام کیا۔قدیم ہڑپہ کے مقام سے موجودہ دریائے راوی تقریباً چھے میل دور ہے لیکن جب شہر آباد تھا تو راوی اس کے قریب بہتا تھا ،اسی لیے قلعے کے قدیم دور میں اس کے ساتھ کچی اینٹوں اور مٹی سے ایک بڑا حفاظتی بند بنایا گیا تھا‘جب کبھی راوی میں سیلاب آتا تو یہ بند قلعے کی حفاظت کرتا تھا۔ہڑپہ اور موئن جو داڑو،دونوں قدیم شہروں کا نقشہ اور ترتیب آپس میں انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے ہڑپہ کھنڈرات کی ان گنت اینٹیں چوری کر کے نئی تعمیرات میں استعمال کیں اور لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھانے کے سلسلے میں یہاں سے ملبہ اٹھا کر استعمال کیا گیاجس وجہ سے ہڑپہ کی مکمل شکل و صورت ماہرین ِ آثار کے سامنے نہیں آ سکی مگر پھر بھی محکمہ آثار قدیمہ نے اس قدیم شہر کو دریافت کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ساہیوال آرٹس کونسل میں ہونے والی اس کانفرنس میں ہڑپہ میوزیم میں ایک نمائش بھی سجائی گئی جس میں مندوبین کو تقریباً نو ہزار سال پرانی (اس پر اختلاف ہے)تہذیب سے متعارف کروایا گیا‘ہڑپہ جس کے بارے ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ یہ تہذیب پاکستان میں وادی سندھ کے شہروں ہڑپہ‘موئن جوداڑو اور کوٹ دیجی سے لے کر انڈیا سے گھگر ہاکڑا دریا کی وادی میں واقع بھڑانا‘کالی بنگن اور حصار پھیلی ہوئی تھی۔ساہیوال ادبی کانفرنس میں جہاں ہڑپہ جیسی اہم تہذیب پر مقالات پیش کیے‘وہاں کانفرنس کے ذیلی عنوان’تہذیبی تشخص کی تلاش وتشکیل اور ہمارا ادب‘پر بھی درجنوں تحقیقی مقالہ جات سننے کو ملے۔ساہیوال آرٹس کونسل کی بنیادی ذمہ داری پنجاب کی ثقافت اور اس کے حقیقی رنگوں کو اجاگر کرنا اور ساہیوال جیسے تاریخی شہر کی ثقافتی اہمیت کو جامعات سے وابستہ محققین کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ اس قدیم تہذیب کی مٹتی ہوئی شناخت کو بچایا جا سکے۔یہ کانفرنس گزشتہ تین برس سے منعقد ہو رہی ہے اور ہر سال اس میں درجنوں نئے موضوعات اور محققین کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس میں تنوع پیدا کیا جا سکے۔ ساہیوال ادبی کانفرنس کے علاوہ بھی پورا سال پنجاب کونسل آف دی آرٹس کے تعاون سے یہاں علمی،ادبی و ثقافتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔گزشتہ برس اسی کونسل نے جدید نظم کے قد آور شاعر مجید امجدؔ پر بھی ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں مجید امجدؔ کی ساہیوال سے وابستگی سمیت ان کے فکر و فن پر کئی سیرحاصل مقالات پیش کیے گئے‘جنھیں جلد کتابی شکل میں بھی پیش کیا جائے گا۔اس کانفرنس میں شامل ہونے والے مقررین کی گفتگو ہوا میں تحلیل نہیں ہوتیں بلکہ ہر برس پیش کیے جانے والے مقالات کو کتاب کی صورت میں بھی سامنے لایا جاتا ہے تاکہ کانفرنس کی ادبی و ثقافتی اہمیت قائم رہے اور اس کی بازگشت صدیوں سنائی دیتی رہے۔ اس برس ہونے والی اس کانفرنس میں بھی جہاں تہذیبی تشخص کے عناصر زیر بحث لائے جا رہے ہیں ‘وہاں پاکستانی زبانوں کے ادب اور اردو کی دیگر اصنافِ سخن (افسانہ، ناول‘نظم‘غزل،سفرنامہ)میں موجود تہذیبی تشخص کی تشکیل سازی پر بھی مباحث رکھے گئے ہیں۔شناخت کا سفر جو ہڑپہ تہذیب اور پاکستانی ادب سے وابستہ ہے‘اس کانفرنس میں زیر بحث گیا۔اس کانفرنس کی انفرادیت بھی یہی ہے کہ اس میں ذیلی عنوانات انتہائی دل چسپ اور پرمغز ہوتے ہیں‘ کانفرنس میں شمولیت کرنیوالے مندوبین کی دل چسپی دو دن برقرار رہتی ہے۔ میں نے اس کانفرنس کے پہلے دن (۱۷ سمبر)دوسرے سیشن میں اپنی معروضات پیش کیں،میرا موضوع ’جدید اردو غزل میں پنجاب کاثقافتی لینڈ اسکیپ‘تھا۔تقسیم کے بعد اردو غزل میں پنجاب کی تہذیبی و ثقافتی بازگشت کن شعرا کے ہاں موجود ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کیسے تنوع آیا اور اس میں کن قلم کاروں کا کردار اہم رہا،اپنے مقالے میں پیش کیا۔ڈاکٹر ریاض ہمدانی اس کانفرنس کے روحِ رواں تھے‘ہمدانی صاحب کمال آدمی ہیں،جب سے ساہیوال آرٹس کونسل کا چارج سنبھالا ہے‘ ساہیوال کی ادبی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنے کے لیے بے تحاشاکام کیا۔کانفرنسز‘سیمینارز‘مشاعرے اور ورکشاپس ،ہر طرح سے علمی و ادبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اتناکام کوئی جِن ہی کر سکتا ہے‘درجنوں مندوبین کو مدعو کرنا‘ان کی رہائشوں اور کھانوں کا اہتمام کرنا اور پھر سب سے اہم بات کہ ہر مہمان سے خود رابطہ رکھنا‘ان کی آمدورفت تک کے انتظامات دیکھنا،یہ سب اکیلے کرنا کتنا مشکل کام ہے،میں ہی جانتا ہوں۔مجھے اپنے شہر میں چار قومی کانفرنسیں کروانے کا اتفاق ہوا اور ان کانفرنسوں کے انتظامات کیسے دیکھے‘میں ہی جانتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ریاض ہمدانی اور ان کی پوری ٹیم کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں کہ وہ چار سال سے ادبی عبادت میںمصروف ہیں اور ہر کانفرنس گزشتہ سے شاندار ہوتی ہے۔ہمدانی صاحب اکیلے چلے تھے‘آج ساہیوال میں پورا کاروان موجود ہے جو اس کانفرنس کے لیے پورا سال محنت کرتا ہے اور اسے کامیاب بناتا ہے،ان سب احباب کے لیے دعائیں ۔