امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرز پرملک میں داخلی سلامتی کا ڈھانچہ قائم کرنے کا مطالبہ گزشتہ ہفتے اس وقت دوبارہ گونج اٹھا ،جب وفاقی دارالحکومت میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوا۔متعدد رکاوٹوں کے باوجود مالی منفعت سے بھرپور اور بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا داخلی سلامتی کا بنیادی ڈھانچہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کو ہمیشہ متاثر کرتا ہے۔ بیوروکریٹک ذہنیت نے مقامی سیاق و سباق، ضرورت اور موجودہ مالی اور ادارہ جاتی حدود کو مدنظر رکھے بغیر مغرب سے متاثر ہوکر نئے اقدامات تجویز کرنے کی عادت ڈال رکھی ہے۔ان کے ہاں سیکورٹی کے موجودہ میکنزم کے نفاذ اور کارکردگی کو بہتر بنانے اور ان میں اصلاحات کرنے پر شاید ہی کوئی دلچسپی اور غور کیا جاتا ہے۔ہمیشہ نئے متوازی اقدامات کی تجویز کے پیچھے منطق یہ ہے کہ ایسی تجاویز بیوروکریسی کو گنجائش فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنی اہلیت کی کمی کا الزام موجودہ نظام پر ڈال سکے۔ پاکستان میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ڈھانچے کا خیال پیش کرنے سے پہلے، نیکٹا نے وزیراعظم شہباز شریف کو ’قومی انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ‘ قائم کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔مجوزہ محکمہ نیکٹا کے تحت وفاقی سطح پر کام کریگا اور اسے ملک بھر میں انسداد دہشت گردی آپریشنز کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ عدم دلچسپی اور سست روی سے معاملات کو چلانے کی وجہ سے نیکٹا کے کام میں تعطل پیدا ہو گیا ہے۔اب بھی یہ اتھارٹی ابھی بھی اپنے صحیح کردار کا تعین کرنے کے عمل میں ہے – قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی یا حکومت کو سکیورٹی پالیسی کی سمجھ بوجھ فراہم کرنا، نیکٹا ایکٹ کے مطابق ڈیٹا اکٹھا کرنا ، پھر ان معلومات کا تجزیہ کرنا اور متعلقہ حکام تک پہنچانا اس کے بنیادی کام ہیں۔یہ قانون سیکورٹی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے اہم کام کی وضاحت کرتا ہے۔نیکٹا نے ایک مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ بھی قائم کیا تھا جس میں انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کے سینکڑوں افسران شامل تھے۔اس ادارہ کا مستقبل اور ترقی نامعلوم ہے، سوائے اس کے کہ نیکٹا اپنا زیادہ تر بجٹ اس پر خرچ کر رہا ہے۔ نیکٹا کو دہشت گردی سے متعلقہ خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشنل کردار کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جب کہ پولیس کے صوبائی انسداد دہشت گردی کے محکمے پہلے سے موجود ہیں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں – دونوں طرح سے، عسکریت پسند مخالف آپریشن شروع کرنے اور معلومات اکٹھی کرنے میں، خاص طور پر سندھ اور پنجاب پولیس کے سی ٹی ڈیز نے قابل تعریف کام کیا ہے۔اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں احتساب اور شفافیت کی چند اصلاحات متعارف کرائیں اور اپنی استعداد کار میں بہتری لائیں تو یہ محکمے اور بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔اب تک یہ سی ٹی ڈی ڈیپارٹمنٹ روایتی پولیس لائنز کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یعنی وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تمام ادارہ جاتی خرابیوں میں بھی رچ بس گئے ہیں۔ نیکٹا سی ٹی ڈیز کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے اور جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ سے حاصل کردہ معلومات ان تک پہنچا سکتا ہے۔اس میں قانون سازی میں تبدیلی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ نیکٹا خود ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے تناظر میں تصور کیا گیا تھا، تاہم اس طرح کے ایک آزاد ادارے کا قیام پاکستانی نقطہ نظر سے ایک خواب ہی رہے گا۔سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کا ایک مخصوص پس منظر ہے اور یہ اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف محکموں کے انضمام کے ذریعے تیار ہوا ہے۔دوسرا، یہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے ،جس میں 24 محکمے ہیں اور سالانہ بجٹ 173 بلین ڈالر ہے۔اتنے بڑے ادارے کے مالیاتی اور تنظیمی پہلوؤں کے علاوہ امریکہ کو جن خطرات کا سامنا ہے ان کی نوعیت ہم سے بہت مختلف ہے۔ کچھ عرصہ غور و فکر کے بعد، نیکٹا کو بعد میں انگلینڈ کے نیشنل سکیورٹی سیکریٹریٹ کی شکل دی گئی، جو حکومت میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے امور کو مربوط کرتا ہے اور قومی سلامتی کے امور پر جائزے تیار کرتا ہے۔اسی تناظر میں نیکٹا کو سٹریٹجک رہنمائی فراہم کرنے اور تمام انٹیلی جنس اداروں کیلئے ایک مرکزی محور کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن ایسا ادارہ پاکستان میں کام نہیں کر سکتا کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں نیکٹا جیسے سویلین ادارے کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے گریزاں ہیں۔ صوبائی حکومتیں اور سی ٹی ڈی نیکٹا جیسے ڈھانچے اپنی سطح پر تیار کر رہے ہیں۔گزشتہ ماہ سی ٹی ڈی سندھ نے ایک نیا سیل قائم کیا جسکا نام ’انسداد انتہا پسندی انفورسمنٹ سیل‘ ہے، جبکہ خیبر پختونخواہ حکومت پہلے ہی یہ قدم اٹھا چکی ہے۔ درحقیقت پاکستان کو نیکٹا جیسے وفاقی ادارے کی اب بھی ضرورت ہے جو قومی داخلی سلامتی پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔تاہم، حکومت اور یہاں تک کہ نیکٹا کی بیوروکریسی اور وزارت داخلہ بھی داخلی سلامتی کے معاملات کو اس وقت تک سنجیدگی سے نہیں لیتے جب تک کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق مسائل سامنے نہ آئیں اور لوگ کارروائی کا مطالبہ نہ کریں۔اس صورتحال میں نیکٹا اچانک اہم ہو جاتا ہے لیکن جب نازک مرحلہ ختم ہو جاتا ہے تو حکومت نیکٹا کو بھول جاتی ہے۔اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کی آخری میٹنگ دو سال کے وقفے کے بعد ہوئی،حالانکہ یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ بورڈ کو سال کی ہر سہ ماہی میں کم از کم ایک بار میٹنگ کرنی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلی میٹنگ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا تھا کہ نیکٹا کی تنظیم نو کی ضرورت ہے، اور اس مقصد کے لیے کئی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔تاہم نیکٹا کی باڈی کو تبدیل کرنا یا ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ جیسی متوازی باڈی بنانا پاکستانی تناظر میں ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کی وجوہات پہلے بیان کی جا چکی ہیں۔پاکستانی ریاست کو اپنے سیکورٹی ڈھانچے اور ان کی تخلیق کردہ ذہنیت کے بارے میں تنقیدی مطالعہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے کا بنیادی ڈھانچہ جو پاکستان کو ورثے میں ملا تھا اور جو کہ برسوں کے دوران تیار ہوا ہے ناکام ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی پیچیدگیاں اور داخلی سلامتی کے چیلنجز اور نظام کی اصلاح میں ریاست کی نااہلی ہے۔نیکٹا اس صورت میں موثر ہو سکتا ہے جب وہ اپنے بنیادی کوآرڈینیشن مینڈیٹ پر توجہ دے اور اندرونی خطرات کے بارے میں پالیسی بصیرت فراہم کرے۔ اگر یہ اپنے مینڈیٹ سے ہٹ جاتا ہے تو دوسری ایجنسیاں اس کی جگہ پر مداخلت جاری رکھیں گی۔ پچھلے سال، 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کی گئی تاکہ اصل دستاویز کا ایک مختصر 14 نکاتی ورژن بن جائے۔اس کے نفاذ کے لیے ایک نیا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔اس ادارے کو ٹی ٹی پی اور بلوچ شورش کی جانب سے موجودہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو ٹھوس منصوبہ فراہم کرتے ہوئے اپنی اہلیت کو ثابت کرنا ہوگا۔