گزشتہ چار سال میں دنیا نے ٹرمپ کی صورت میں ایک بڑبولا کچھ کچھ خبطی اور بظاہر من موجی جو جی میں آئے ٹویٹ کرنے والا امریکی صدر بھگتا ہے۔ جس نے امریکہ کو جوڑنے سے زیادہ تقسیم کیا ہے ۔اس وقت صدارتی الیکشن کی دوڑ میں جوبائیڈن ‘ وکٹری پوائنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صورت حال واضح ہو رہی ہے کہ وائٹ ہائوس کا نیا مکین ڈیمو کریٹس کا امیدوار جوبائیڈن ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو چونکہ دنیا بھگت چکی ہے سو اس بار دلچسپی اور توجہ کا مرکز بائیڈن کی ذات ہے۔ وائٹ ہائوس کے نئے مکین بائیڈن کو جاننے کے لئے ہمارے پاس انٹرنیٹ کا ذریعہ موجود ہے۔ سو میں نے ڈھیروں آرٹیکلز پڑھے جوبائیڈن کے انٹرویوز سنے اور کوشش کی کوئی نئی بات ان کی شخصیت کے حوالے سے سامنے آئے جس کا تذکرہ ہمارے عمومی میڈیا ٹاکس میں اور مضامین نہیں ہو رہا ۔ گارڈین نے اپنے ایک مضمون میں بڑا دلچسپ فقرہ لکھا۔ The greatest hope about joe biden is that he is not donald trump. جوبائیڈن اس وقت امریکی سیاست میں سب سے زیادہ تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ گزشتہ 50برسوں سے امریکی سیاست میں سرگرم ہیں۔1972ء میں پہلی بار سینیٹر بنے۔ یوں ایک سیاستدان کی حیثیت سے جوبائیڈن کا امریکی عوام سے تعلق گزشتہ پچاس برسوں پر محیط ہے۔ جوبائیڈن کی سوانحی حقائق پڑھ کر لگتا ہے کہ سیاست میں ان کی دلچسپی اس وقت سے ہے جب وہ ابھی طالب علم تھے اور عملی سیاست سے کوسوں دور تھے۔اپنی پہلی بیوی Neiliaسے کالج کے زمانے میں محبت ہوئی۔ اس کی ماں نے پہلی ملاقات میں سوال کیا میاں صاحبزادے‘ میری بیٹی کا رشتہ مانگ رہے ہو تو یہ بتائو‘ مستقبل میں کیا بننے کا ارادہ ہے۔ نوجوان جوبائیڈن نے بلا توقف کہا پریذیڈنٹ آف امریکہ۔ ازراہ تفنن کہی ہوئی بات پچاس برسوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ مگر اس وقت بائیڈن کی پہلی محبت پہلی بیوی کو وفات پائے اڑتالیس برس گزر چکے ہیں جو 1972ء میں ایک کار حادثے میں چل بسی تھی۔ جوبائیڈن نے ایک بار اپنے کتے کا نام بھی سینٹر رکھا اور یہ کتا اپنی بیوی کو تحفے میں پیش کیا۔ 1972ء کے کار حادثے میں جوبائیڈن کی بیوی نیلیا کے ساتھ اس کی شیر خوار بیٹی نوھا بھی ہلاک ہو گئی۔وائٹ ہائوس کے نئے مکین کی ذاتی زندگی کا یہ پہلو دردناک ہے کہ زندگی کے سفر میں انہوں نے اپنی بیوی شیر خوار بیٹی اور چھیالیس سالہ جواں سال بیٹے Beauکی موت کے صدمے برداشت قریبی رشتوں کے مفارقت سے ملنے والے دکھوں اور غموں نے جوبائیڈن کی شخصیت میں دکھوں کو محسوس کرنے کا انداز پیدا کیا۔ انسانی رشتوں انسانی جذبوں کی اہمیت کا احساس پیدا کیا اور اپنے اندر کی اس حساسیت کو جوبائیڈن نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔ جی ہاں وائٹ ہائوس کے اگلے مکین یادداشستوں پر مبنی دو کتابیں بھی تحریر کر چکے ہیں۔ پہلی کتاب کا نام: Promises to keep on life and politics. دوسری کتاب کا نام ہے promise me, dad: a year of hope hardship and purpose. دوسری کتاب جوبائیڈن نے اپنے 46سالہ بیٹے کی موت کے حوالے سے لکھی مشہور امریکی ٹی وی اینکر سٹیفن کولبرٹ نے جوبائیڈن کواپنے مشہور ٹی وی شو میں بلا کر بطور خاص اس کتاب پر گفتگو کی ایک سیاستدان کو جو صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شریک ہو دکھ اور غم جیسے خالص انسانی ایشو پر بات کرتے سن کر حیرانی ہوتی ہے بائیڈن کہتے ہیں میرا پیارا بیٹا دماغ کے ٹیومر کا شکار ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور موت اگر بیٹے کو باپ سے چھین کر لے گئی تو باپ بکھر کر رہ جائے گا۔ اسی لئے بیٹا اپنے باپ سے کہا کرتا تھا پرامس می ڈیڈ ار وہ وعدہ یہ تھا کہ جدائی کے دکھ سے شکستہ اور کمزور نہیں ہونا۔ بلکہ لوگوں کی خاطر مضبوط رہنا اور بہتر کل کی کوشش کرتے رہنا۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے چھپنے کے بعد مرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جنہوں نے اپنے کسی پیارے کو کھو دیا ہوتا ہے اور وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ غم سے طاقت حاصل کرنی ہے۔ سیمینار اور ورکشاپ میں جوبائیڈن لوگوں سے ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں کہ غم کی تاریکی میں زندگی گزارنے کا راستہ کیسے تلاش کرنا ہے۔ امریکی عوام اپنے آنے والے نئے صدر کے اس انسانی پہلو کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں صرف اس ایک وجہ سے اس انٹرویو کے نیچے سینکڑوں لوگوں نے جوبائیڈن کو اپنے لئے انسپائریشن قرار دیا ان میں امریکی بھی تھے اور غیر امریکی بھی۔ جوبائیڈن کا عوام کے ساتھ رابطہ اور تعلق سیاست کی سرد مہری اور تکلفات سے ہٹ کر بہت بے ساختہ اور گرم جوشی والا ہے۔ ایک انٹرویو میں جوبائیڈن نے کہا کہ میں صرف ایک سرد مہر سیاستدان جوبائیڈن نہیں ہوں آپ مجھے ’’انکل جو‘‘ کہہ سکتے ہیں ہو سکتا ہے میں آپ کے بالوں میں بے تکلفانہ انداز میں انگلیاں پھیروں اور پوچھوں ۔ہاو از یور گرینڈ ما۔؟ دیکھتے ہیں کہ غم دکھ موت اور جدائی کی تکلیف کو سمجھنے والے انکل جو دنیا کے لئے کتنے ’’مہربان‘‘ اور دوست ثابت ہوتے ہیں بہرحال یہ بات امید افزا ہے کہ ’’ہی از ناٹ ڈونلڈ ٹرمپ‘‘