دبئی میں وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے درمیان ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کے موقع پر ملاقات میں پاکستان کی مالیاتی مشکلات زیر بحث آئیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے اصلاحات کی ضرورت اور غریب افراد کو معاشی تحفظ دینے کے معاملے پر کرسٹین لیگارڈ ان کی ہم خیال ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے ملاقات کو تعمیری قرار دیا اور بتایا کہ ان کی پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے بات ہوئی ہے اور اس مالیاتی پیکیج سے پاکستانی معیشت میں استحکام آئے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے نئے پیکیج کو اگلے سال کے بجٹ اہداف پورے کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ رواں ہفتے پاکستان اور آئی ایم ایف کے ٹیکنیکل عملے کے درمیان تفصیلات پر بات ہوگی جس کے بعد اگلے ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف حکام سے بات کریں گے۔ آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج اپریل 2019ء تک حتمی منظوری حاصل کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پیکیج کو بعض اصلاحاتی مطالبات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ حکومت نے اگلے سال کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 4.39 کھرب مقرر کر رکھا ہے۔ آئی ایم ایف اسے 4.7 کھرب روپے تک لانا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ، ایکسچینج ریٹ اور روپے کی قدر میں کمی میں بھی دلچسپی دکھا رہا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجٹ خسارے کو کسی حد تک بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر پورا کیا جائے۔ سرکاری اداروں میں خسارے کی شرح کم کی جائے، سٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دی جائے، کرنسی کی شرح تبادلہ کو مارکیٹ کی طلب و رسد پر چھوڑ دیا جائے اور سٹرکچرل اصلاحات کو آئندہ مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کو ایک ایسے لالچی، بے رحم اور سود خور کی صورت میں دیکھا جاتا ہے جو اپنی رقم پوری کرنے کے لیے قرض خواہ کا گھر بار اور برتن تک بیچ ڈالتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایسی شناخت بنانے میں ان سیاستدانوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے جو اقتدار میں آ کر عوام کی زندگی بدلنے کے سینکڑے فارمولے جیب میں رکھے ہوتے ہیں۔ ان کے مخالف حکومت میں ہوں تو یہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر شدید تنقید کرتے ہیں اور خود اقتدار میں ہوں تو عالمی مالیاتی ادارے سے لین دین کے تعلق کو مالیاتی سکیورٹی کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ اس طرز عمل کے اثرات عوامی رائے پر مرتب ہوتے ہیں۔ یوں آئی ایم ایف کے ساتھ منفی شناخت چپک گئی۔ سابق حکومت نے ملکی تاریخ میں سب سے بڑا پیکیج لے کر آئی ایم ایف کو موقع دیا کہ وہ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو قرضوں کا محتاج بنا دے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مدد لیتے ہیں۔ اس مالیاتی مدد کی وجہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث مالیات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے حکمران آتے رہے جو ملک کی عمومی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی بجائے وقتی سہولت کو اہم قرار دیتے رہے۔ آئی ایم ایف سے ہم اس لیے قرض لیتے ہیں تاکہ پہلے والے قرض واپس کرسکیں۔ قرض کی یہ رقوم سابق حکومت نے میگا ٹرانسپورٹ منصوبوں پر خرچ کیں جو خود حکومتی سبسڈی کے بغیر چالو نہیں رہ سکتے تھے۔ اس رقم کو نئے پیداواری یونٹ قائم کرنے اور ٹیکنالوجی درآمد کرنے پر خرچ کیا جاتا تو نہ صرف روزگار پیدا ہوتا بلکہ ان قرضوں کی واپسی کا انتظام بھی کرلیا جاتا۔ عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو سب سے بڑا چیلنج ملک کے روزمرہ اخراجات پورے کرنا اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانا تھا۔ حکومت کو قومی خزانہ کی بری حالت کا اندازہ ہوا تو متبادل ذرائع سے رجوع کا سوچا جانے لگا۔ آئی ایم ایف سے رجوع ضروری سمجھا گیا ۔ اس موقع پر حکومت نے دوست ممالک سے امداد کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے الگ الگ پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ ان کی مدد سے پاکستان فوری طور پر کسی مالیاتی خطرے سے محفوظ ہو گیا مگر معیشت کو نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ صرف آئی ایم ایف سے حاصل ہوسکتے تھے۔ دوست ممالک کی مدد نے اتنا ضرور کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو پہلے جن شرائط پر قرضہ دے سکتا تھا اب ان میں لچک آئی ہے۔ آئی ایم ایف قرض دیتے وقت کسی ملک کی ضرورت کے حجم اور شدت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ پاکستان نے اس ضرورت کی شدت میں کمی کر کے عالمی ادارے سے بات چیت کا ماحول اپنے حق میں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حالت مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ غریب افراد کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کے معاملے پر ان کے اور کرسٹین لیگارڈ کے خیالات ایک دوسرے سے موافق ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر وصول کرنے سے پہلے جن سٹرکچرل اصلاحات اور اہم مالیاتی فیصلوں کا ارادہ رکھتا ہے اس سے غریب پاکستانیوں کی زندگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم قرض لے لیں اور اس کی واپسی کا انتظام ایک بار پھر نہ ہوسکے۔ حکومت برآمدات بڑھا کر، پیداواری شعبہ کی حوصلہ افزائی کر کے اور تجارت میں شراکت دار ممالک سے بات چیت کرکے اس بیل آئوٹ پیکیج کے استعمال کو مفید بنا سکتی ہے۔