سیانے کہہ گئے ہیں کہ راہ پیاں جانڑے یا واہ پیاں جانڑے یعنی جب تک براہ راست واسطہ نہ پڑے اس وقت تک راستے کی مشکلات کا پتہ نہیں چلتا۔ اب ہماری نئی نویلی حکومت کہ جو اب اتنی نئی بھی نہیں رہی کوئی قدم اٹھاتی ہے تو ادھر یاران نکتہ داں انہیں یاد دلاتے ہیں کہ آپ تو یوں کہتے تھے مگر اب آپ بالکل اس کے برعکس کر رہے ہیں اور بقول شاعر کہیے تو اب وہ قوت بازو کہاں گئی موجودہ دور کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کے بیانات کوئی آب پر لکھی تحریریں یا اخباروں میں چھپی ہوئی خبریں نہیں ہوتیں کہ جن کی بآسانی تردید کردی جاتی تھی اب آئی ٹی کی نوازش اور ویڈیوز کی آن لائن آرکائیوز سے ناقدین تیز گام پرانی ویڈیوز نکال لاتے ہیں اور میڈیا پر نئے اور پرانے بیانات کا ایسا دلچسپ موازنہ پیش کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ غالباً 1960ء کی دہائی میں ٹیپ ریکارڈ نیا نیا آیا تھا ایک صحافی مشرقی پاکستان کے محبوب رہنما جنہیں پاکستان میں بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا جناب حسین شہید سہروردی کا انٹرویو کرنے کے لیے گئے۔ سہروردی صاحب متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے تھے۔ نوجوان صحافی نے انٹرویو کے آغاز میں ہی ٹیپ ریکارڈ آن کر کے میز پر رکھ دیا۔ سہروردی صاحب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پوچھا کہ کیا ہے نوجوان نے کہا کہ یہ ٹیپ ریکارڈر ہے۔ میں گفتگو کے بعد اس کی ریکارڈنگ سے آپ کا انٹرویو مرتب کروں گا۔ سہروردی صاحب نے کہا اسے بند کرو تاکہ انٹرویو کا آغا ہو سکے۔ جب ٹیپ ریکارڈر بند ہو گیا تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ریکارڈنگ کر کے مجھے تردید کے حق سے محروم کردیں۔ ایک سیاست دان کبھی تردید کے حق سے دستبردار ہونا پسند نہیں کرتا۔ مگر یہ ویڈیوز اور کلپس ریکارڈنگ کی تردید کرنا بہت دشوار ہے۔ ہم نے تو پہلے ہی ایک کالم میں لکھا تھا کہ ہمیں بالآخر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس لیے وزیر خانہ اسد عمر کسی تردد و تردید اور توجیہہ کے چکر میں نہ پڑیں اور سیدھا سیدھا جواب دیں کہ وہ تب کی بات تھی یہ اب کی بات ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے 27 ستمبر سے لے کر 4 اکتوبر تک اسلام آباد میں قیام کیا اور پاکستان کی معاشی صورت حال کا اندازہ لگایا اس ضمن میں پاکستانی حکام سے تبادلہ خیال کیا۔ جونہی گیس کی قیمتیں بڑھی تھیں اور بار بار بجلی کی قیمتیں بھی بڑھانے کی خبر دی گئی اور کبھی اس کی تردید کی گئی۔ جونہی دونوں چیزوں کی قیمتیں بڑھا دی گئیں تو ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا کہ یہ قرائن تو طواف کوئے ملامت جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس دوران برادر ملک سعودی عرب سے آنے والی سرمایہ کاری کے بارے میں طرح طرح کے متضاد دعوے کئے گئے۔ کوئی وزیر کچھ کہتا تھا کوئی مشیر کچھ کہتا تھا جبکہ ابھی کوئی ٹھوس بات یا کوئی تحریری معاہدہ سامنے نہ آیا تھا مگر ہمارا حال بقول ڈاکٹر خورشید رضوی یہ تھا کہ اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں رخصت ہونے والی حکومت نے کچھ اس انداز سے قرضے لیے تھے کہ جیسے انہیں کبھی واپس ہی نہ کرنا ہوں۔گزشتہ چار پانچ برس کے دوران ہمارا تجارتی خسارہ کم از کم اسی پچاسی ارب ڈالر کی حد کو چھو چکا ہے۔ ہماری درآمدات کی مالیت ہماری برآمدات کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے اور قرضوں کے کوہ ہمالیہ کا سودا کرنے اور ڈیفالٹر ہونے سے بچنے کے لیے ہمیں فوری طور پر 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا اور وہ سرمایہ کاری مخصوص منصوبوں پر صرف ہونے کے لیے ہمیں بالاقساط وصول ہوگی۔ اسی طرح ہمارا دوست چین بھی سی پیک منصوبے کے مطابق سرمایہ کاری تو ضرور کرر ہا ہے مگر وہ بھی ہمیں کوئی بڑی رقم نقد ڈالروں کی صورت میں دینے پر آمادہ نہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنے دونوں بہترین دوستوں سعودی عرب اور چین سے ایسا کوئی مطالبہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ عربی زبان کی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ اگر تمہارا بھائی شہد ہے تو تم سارے کا سارا نہ کھا جائو۔ اسلام آباد کے ایک ہفتے کے دورے کے بعد آئی ایم ایف ٹیم کے سربراہ مسٹر ہیرلڈننگر نے پاکستانی معیشت کے بارے میں اپنے مشاہدات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہا۔ پاکستان کو ایک بہت مشکل اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور اس کے بین الاقوامی اثاثے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مسٹر ننگر نے کہا پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنا ہو گا اور گیس اور بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نئی حکومت کو عام آدمی کی حالت میں بہتری لانے اور اس کے تحفظ کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں جناب اسد عمر سے اتفاق ہے کہ اس وقت ہماری معیشت آئی سی یو میں پڑی ہے۔ آئی سی یو میں پڑے مریض پر فوری توجہ دی جاتی ہے اور اسے آکسیجن مہیا کر کے نارمل کیا جاتا ہے اور پھر اس کے امراض کا کھوج لگا کر ان کا مستقل اور دیرپا علاج کیا جاتا ہے۔ یہی صورت ہماری معیشت کی ہے۔ اس لیے بلاتاخیر ہر طرح کے پندار سے دستبردار ہو کر اسی کی فوری اصلاح کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس فوری ایمرجنسی علاج کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ نہ کشکول گدائی لے کر جانے کی بات ہے اور نہ ہی ہاتھ پھیلانے والا کوئی معاملہ۔ معیشت کو ٹریک پر لا کر پھر سوچئے کہ ہم نے بجلی کے لیے لئے گئے 1200 ارب روپے کے گردشی قرضوں سے کیسے نجات حاصل کرنی ہے، ہم نے لگژری اشیاء کی درآمدات کو کیسے کم کرنا ہے، اپنی برآمدات میں کیسے اضافہ کرنا ہے، ملک کے اندر سمال انڈسٹریز کا جال کیسے بچھانا ہے۔ بھاری صنعتوں کی کیسے حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے ضرور سبق سیکھیں مگر ذرا بنگلہ دیش کی طرف نظر کریں جو ہم سے دوگنا سے بھی زیادہ چالیس ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ اسد عمر سے لوگوں نے یہ توقعات وابستہ کررکھی تھیں کہ وہ پامال راستوں کو چھوڑ کر معیشت کی اصلاح کے لیے کوٹ آف باکس حل تجویز کریں گے۔ کوئی ایسا معاشی ماڈل لائیں گے جو اس سے پہلے پاکستان کے کسی وزیر خزانہ کو نہ سوجھا ہو گا۔ جناب اسد عمر کو اس ڈویلپمنٹ ماڈل کا مطالعہ کرنا چاہیے جو ڈاکٹر محبوب الحق نے 1960ء کی دہائی میں بحیثیت چیف اکنامسٹ اور پھر 1985ء اور 1988ء تک وزیر خزانہ کی حیثیت سے تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق کو ان کے زمانے میں بین الاقوامی اقتصادی ترقی کے حوالے ایک ویژنری سمجھا جاتا تھا اور ورلڈ بینک سے لے کر بڑی بڑی مشہور یونیورسٹیوں تک میں ان کے اقتصادی وژن کی بہت داد دی جاتی تھی۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے پنجاب یونیورسٹی پھر کیمبرج یونیورسٹی سے ایم اے تک تعلیم پائی اور ہیل یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی بھی نہایت صدق دل اور عرق ریزی کے ساتھ ز وال پذیر معاشی صورت حال کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور اصلاح احوال کے لیے اقتصادی نسخے بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی تجارتی خسارے کے بارے میں اکثر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ شب ایک دوست کے ہاں رات کے کھانے پر کچھ لاہور اور کراچی کے اصحاب فکر اور اصحاب ہنر موجود تھے۔ محفل میں لاہور کے ایک تاجر بھی مدعو تھے۔ ممتاز بزنس مین نے کہا کہ ہم اس حکومت کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تاجروں کو اعتماد میں لے اور انہیں ڈرانا چھوڑ دے۔ اگر حکومت نے یہ پالیسی اپنائی تو انہیں ہدف سے زیادہ ٹیکس وصول ہونے کی ہم گارنٹی دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر معیشت کی ایمرجنسی اصلاح کے لیے بلاتاخیر قدم اٹھائیں اور اگر اس کے لیے آئی ایم ایف کے کوچہ ملامت بھی جانا پڑے تو بغیر ندامت و ہچکچاہٹ کے چلے جائیں۔ اضطرار میں تو بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے۔