پاکستان کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وفد نے جوہری سلامتی کے ضمن میں پاکستان کے اقدامات کو قابل تعریف قرار دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق آئی اے ای اے وفد کا دورہ نیو کلیئر سکیورٹی کو آپریشن پروگرام کا حصہ تھا۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وفد نے چار روزہ دورے کے دوران نیوکلیئر اتھارٹی اور جوہری توانائی کمیشن کے چیئرمین سے ملاقات کی۔ وفد نے کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کا دورہ بھی کیا۔ آئی اے ای اے نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت آئی اے ای اے پاکستان کو تحقیق،ڈویلپمنٹ اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدت و اختراع کے لیے مدد فراہم کرے گی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ میں قائم مرکز اس سلسلے میں معاونت کے فرائض اداکرے گا۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز جوہری تحقیق کا اہم مرکز ہے اور یہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ آئی اے ای اے کے پاکستان میں قائم حالیہ مرکز کے علاوہ دنیا بھر میں 43مراکز کام کر رہے ہیں جبکہ بہت سے ممالک کے ساتھ نئے ریسرچ سنٹر قائم کرنے پر بات چیت جاری ہے۔ حالیہ برس مارچ میں آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانونے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان نے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی جوہری توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی اے ای اے دنیا بھر میں جوہری توانائی کو محفوظ بنانے اور حفاظتی تدابیر کے نظام کی تشکیل کے لیے کام کرتی ہے۔ اگر کوئی ملک اس ایجنسی سے چھپا کر جوہری سرگرمیاں انجام دے رہا ہو تو یہ سرگرمیاں عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہیں اور اس ملک کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کی جاتی ہے۔ انیس سو اسی کے عشرے میں اگرچہ آئی اے ای اے جیسے ادارے فعال نہیں تھے مگر عالمی برادری کے تحفظات خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کو عراق کے ایٹمی پروگرام سے خطرہ لاحق ہوا تو اسرائیلی طیاروں نے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے عراق کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں، ایران کا معاملہ قدرے مختلف ہے تا ہم یہ سچ ہے کہ 2015ء میں جب ایران اور پی فائیو+ون کے درمیان ایٹمی پروگرام پر معاہدہ ہوا تو اٹامک انرجی ایجنسی کو کلیدی کردار تفویض کیا گیا کہ وہ ایران میں یورینیم افزودگی کی مقدار اور معیار پر نظر رکھے۔ پاکستان نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ اس نے ایٹمی صلاحیت اپنے سے کئی گنا بڑے ہمسایہ بھارت کے جارحانہ عزائم سے محفوظ رہنے کے لیے حاصل کی اور پاکستان روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کی بجائے اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کو بطورڈیٹرنس استعمال کرتا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی صرف تباہی و بربادی کے لیے بروئے کار نہیں لائی جاتی۔ دنیا کے درجنوں ملک ایسے ہیں جنہوں نے بجلی پیدا کرنے، زرعی پیداوار میں اضافے اور بیماریوں کے علاج کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اسے ایٹمی ٹیکنالوجی کا پرامن استعمال کہا جاتا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران پاکستان کی معیشت پر تیل کی خریداری نے ناقابل برداشت بوجھ ڈالا ہے۔ تیل کی درآمد کے ساتھ ہم دوسرے ملکوں کی شرائط اور اثر و رسوخ بھی درآمد کرتے رہے ہیں۔ ہر سال بارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ کا تیل صرف گاڑیوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بجلی بنانے کے کارخانے بھی اس کے صارف ہیں۔ تیل سے پیدا کی گئی بجلی اشیاء کی پیداواری لاگت کو بڑھا رہی ہے۔ اس بجلی کو استعمال کر کے جو مال تیار ہوتا ہے وہ عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہتا۔ ہمیں برآمدی مال کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے اس کی پیداواری لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا متبادل حل کے طور پر تیل کی جگہ ایٹمی بجلی گھر ہماری ضرورت ہیں۔ کراچی میں کنوپ(KANUPP)نیوکلیئر پلانٹ پر تعمیری کام جاری ہے۔ آئی اے ای آئی کے عہدیدار اس پلانٹ پر دو نئے ری ایکٹروں کی تنصیب اور حفاظتی تدابیر کے نظام کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ دونوں ری ایکٹرز 2021ء اور سن 2022ء تک بجلی پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔ ان دونوں سے کل 2000 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی جو پاکستان کی مجموعی طلب کے 10فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کا دفاعی ایٹمی پروگرام مغربی طاقتوں اور ہمارے طاقتور ہمسائے بھارت کی نظر میں کھٹکتا رہتا ہے۔ بھارت کی طرف سے عموماً یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے نظام پر سوال اٹھانا ہے۔ الحمدللہ پاکستان کے کسی ایٹمی پلانٹ میں آج تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جسے عملے کی غفلت یا ناکافی حفاظتی اقدامات کا نتیجہ قرار دیا جا سکے۔ دوسری طرف بھارت میں ایسے متعدد سانحات رونما ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن اور ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر پاکستان آئی اے ای اے جیسے اداروں سے تعاون کو اپنے لیے خوش آئند تصور کرتا ہے تا ہم عالمی ایجنسی کے ساتھ حکومت کس نوع کا تعاون کر رہی ہے اور کیا ہمیں کسی معاملے میں دبائو کا سامنا تو نہیں، یہ بات واضح ہونی چاہئے۔ پاکستان کو سکیورٹی نظام مزید بہتر بنانے کے لئے آئی اے ای اے یقینا رہنمائی کر سکتی ہے۔ عالمی اداروں سے معاہدوں میں احتیاط بہر حال ضرور پیش نظر ہونی چاہئے تا کہ ہم کسی نئی عالمی شرارت سے محفوظ رہ سکیں۔