روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث گزشتہ سال لاکھوں روپے کی ادویات زائد المیعاد ہو گئیں۔ ملک بھر میں 1600 سے زائد ٹی بی کنٹرول سینٹر کا کام کر رہے ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت نے اربوں روپے کی جو 450 جدید مشینیںٹی بی کی تشخیص کے لیے خریدی ہیں نظام کے درست نہ ہونے کے باعث ان سے بیماری کی درست تشخیص ہی نہیں ہو پارہی۔ نیشنل ٹی بی کنٹرول کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی افسر شاہی کی کارکردگی اور غریب مریضوں میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کو سالانہ اس موذی مرض کے انسداد کے لیے بین الاقوامی ذرائع سے 144 ملین ڈالر بطور عطیہ ملتاہے جس میں سے حکومت صرف 35 ملین ڈالر صوبوں میں خرچ کرتی ہے،بیشتر حصہ افسر شاہی کے للوں تلوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق جس رقم سے ادویات خریدی جاتی ہیں وہ بھی مریضوں تک نہیں پہنچ پاتیں جس کا ثبوت گزشتہ برس لاکھوں روپے کی ادویات کا پڑے پڑے زائد المیعاد ہونا ہے۔ بہتر ہوگا تحریک انصاف کی حکومت اپنے تبدیلی کے دعوئوں کو جانچنے کامعیار محکمہ صحت کی کارکردگی کو بنائے اور محکمہ صحت میں پیرا میڈیکس سے افسر شاہی تک کی کارکردگی جانچنے کا فول پروف نظام متعارف کروائے تاکہ قومی خزانہ سے اربوں روپے کی سہولیات حاصل کرنے والے عوام کے خادمین کو عوام کی خدمت پر مجبور کر کے اس موذی مرض کے خاتمہ کی کوئی سبیل کی جا سکے۔